کھیل کُود اور شرارتیں

بچپن میں سر سید پر نہ تو ایسی قید تھی کہ کھیلنے کودنے کی بالکل پابندی ہو اور نہ ایسی آزادی تھی کہ جہاں چاہیں اور جن کے ساتھ چاہیں کھیلتے کودتے پھریں۔ ان کی بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ خود ان کے ماموں، ان کی خالہ اور دیگر نزدیکی رشتہ داروں کے چودہ پندرہ لڑکے ان کے ہم عمر تھے جو آپس میں کھیلنے کودنے کے لئے کافی تھے۔ خواجہ فرید کی حویلی جس میں وہ اور ان کے ہم عمر رہتے تھے، اس کا چوک اور اس کی چھتیں ہر موسم کی بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے لئے کافی تھیں۔ ابتداء میں وہ اکثر گیند بلّا، کبڈی، گیڑیاں، آنکھ مچولی، چیل چلو وغیرہ کھیلتے تھے۔ اگرچہ گیڑیاں کھیلنے کو اشراف معیوب جانتے تھے مگر ان کے بزرگوں نے اجازت دے رکھی تھی کہ آپس میں سب بھائی مل کر گیڑیاں بھی کھیلو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ سر سید کہتے تھے کہ:
"کھیل میں جب کچھ جھگڑا ہو جاتا تو بڑوں میں سے کوئی آ کر تصفیہ کر دیتا اور جس کی طرف سے چنید معلوم ہوتی اس کو برا بھلا کہتا اور شرمندہ کرتا کہ چنید کرنا بے ایمانی کی بات ہے، کبھی چنید مت کرو اور جو چنید کرے اس کو ہرگز اپنے ساتھ مت کھیلنے دو۔"

ان کا بیان تھا کہ:
"باوجود اس قدر آزادی کے بچپن میں مجھے تنہا باہر جانے کی اجازت نہ تھی، جب میری والدہ نے اپنے رہنے کی جدا حویلی بنائی اور وہاں آ رہیں تو باوجودیکہ اس حویلی میں اور نانا صاحب کی حویلی میں صرف ایک سڑک درمیان تھی، جب کبھی میں ان کی حویلی میں جاتا تو ایک آدمی میرے ساتھ جاتا، اسی لئے بچپن میں مجھے گھر سے باہر جانے اور عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہیں ہوا۔"

سر سید اپنے کھیل کود کے زمانے میں بہت مستعد اور چالاک اور کسی قدر شوخ بھی تھے۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اکثر شوخی کیا کرتے۔ وہ کہتے تھے کہ:
"یک بار میں اپنے ایک رشتہ دار بھائی کو، جو استنجا کر رہا تھا، چپکے چپکے اس کے پیچھے جا کر چت کر دیا، اس کے سارے کپڑے خراب ہو گئے۔ وہ پتھر لے کر مجھے مارنے کو دوڑا اور کئی پتھر پھینکے مگر میں بچ بچ گیا۔ آخر سب بھائیوں نے بیچ بچاؤ کر کے صلح کرا دی۔ اسی طرح ایک بار میں شطرنج کھیلتے میں ایک اپنے رشتہ دار بھائی سے لڑ پڑا، میرے مُکے سے اس کے ہاتھ کی اُنگلی اُتر گئی اور کئی دن بعد اچھی ہوئی۔ ہمیشہ یونہی لڑائی بھڑائی مار کاثئی ہوتی تھی مگر آخر کو سب ایک ہو جاتے تھے۔"