تیر اندازی کی صحبتیں بھی سر سید کے ماموں نواب زین العابدین خان کے مکان پر ہوتی تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ:


"مجھے اپنے ماموں اور والد کے شوق کا وہ زمانہ جب کہ نہایت دھوم دھام سے تیر اندازی ہوتی تھی، یاد نہیں۔ مگر جب دوبارہ تیر اندازی کا چرچا ہوا وہ بخوبی یاد ہے۔ اس زمانہ میں دریا کا جانا موقوف ہو گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد تیر اندازی شروع ہوتی تھی۔ نواب فتح اللہ بیگ خاں، نواب سید عظمت اللہ خاں، نواب ابراہیم علی خاں اور چند شاہزادے اور رئیس اور شوقین اس جلسہ میں شریک ہوتے تھے۔ نواب شمس الدین خاں رئیس فیروز پور جھرکہ جب دلی میں ہوتے تھے تو وہ بھی آتے تھے۔ میں نے بھی اسی زمانہ میں تیر اندازی سیکھی اور مجھ کو خاصی مشق ہو گئی تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ میرا نشانہ جو تودے میں نہایت صفائی سے جا کر بیٹھا تو والد بہت خوش ہوئے اور کہا، " مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے! " یہ جلسہ برسوں تک رہا، پھر موقوف ہو گیا۔"