سرسید کا عنفوانِ شباب نہایت زندہ دل اور رنگین صحبتوں میں گزرا تھا۔ وہ راگ رنگ کی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ باغوں کی سیر کو دوستوں کے ساتھ جاتے تھے اور وہاں راگ رنگ اور دعوتوں کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ ہولی کے جلسوں اور تماشوں میں جاتے تھے۔ پھول والوں کی سیر میں خواجہ× صاحب پہنچتے تھے اور وہاں کی صحبتوں میں شریک ہوتے تھے۔ دلی میں بسنت کے میلے میں جو موسم بہار کے آغاز میں درگاہوں پر ہوتے تھے وہاں جاتے تھے۔ خود ان کے نانا خواجہ فرید کی قبر چونسٹھ کھمبے میں جو بسنت کا میلہ ہوتا تھا اس میں وہ اپنے اور بھائیوں کے ساتھ منتظم و مہتمم ہوتے تھے۔

اس زمانے میں خواجہ محمد اشرف ایک بزرگ دلی میں تھے۔ ان کے گھر پر بسنت کا جلسہ ہوتا تھا۔ شہر کے خواص وہاں مدعو ہوتے تھے۔ نامی نامی طوائف زرد لباس پہن کر وہاں آتی تھیں۔ مکان میں بھی زرد فرش ہوتا تھا دالان کے سامنے ایک چبوترہ تھا جس میں حوض تھا۔ اس حوض میں زرد ہی پانی کے فوارے چھوٹتے تھے۔ صحن میں جو چمن تھا اس میں جھڑاں زرد پھول کھلے ہوتےتھے اور طوائف باری باری بیٹھ کر گاتی تھیں۔ سرسید کہتے تھے کہ:
"میں ہمیشہ وہاں جاتا تھا اور اس جلسہ میں شریک ہوتا تھا۔"