بابِ چہارم: عادات و خصائل

وہ کہتے تھے کہ حافظ عبدالرحمٰن جو 45 برس سر سید کے رفیق رہے، وہ رہتک میں بھی ان کے ساتھ تھے۔اگر چہ وہ سرکاری نوکر تھے مگر سید صاحب قلتِ تنخواہ کے سبب ان کو اپنے پاس رکھتے تھے۔ اُن سے اکثر ہنسی چُہل کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ حافظ جی اپنی ترقی کے لئے اکثر کہا کرتے مگر چونکہ ترقی کی گنجائش نہ تھی، سید صاحب ہنسی سے یہ کہی کر ٹال دیتے تھے کہ:
"تمہارا خط اچھا نہیں اور نہ کبھی اچھا ہو سکتا ہے کیونکہ تم بدصورت ہو اور بدصورت کبھی خوش نویس نہیں ہو سکتا۔ "

ایک دن حافظ جی نے کہا، "آپ تو ماشاءاللہ بہت وجیہ ہیں، آپ کا خط کیوں اچھا نہیں؟" سید صاحب نے کہا:
"میرے گلے کی رسولی نے میری وجاہت کو بگاڑ دیا ہے، اس واسطے میں بھی بدصورت ہو گیا ہوں، پس میرا خط کیونکر اچھا ہو سکتا ہے؟"

ایک دن سید صاحب نے حافظ جی سے کہا:
"بھلا صاحب!اگر تم بادشاہ ہو جاؤ تو مجھے کیا عہدہ دو؟"
حافظ جی نے ذرا روکھی صورت بنا کر کہا، "حضرت میں مجبور ہوں، چونکہ آپ کا خط اچھا نہیں اس لئے کوئی عہدہ نہ دے سکوں گا۔"

سید صاحب اور ہم سب لوگ یہ گرم فقرہ سن کر پھڑک گئے اور بہت دیر تک ہنستے رہے۔