سر سید ہمیشہ تعطیلوں میں عماراتِ بیرونِ شہر کی تحقیقات کیلئے شہر کے باہر جاتے تھے اور جب کئی دن کی تعطیل ہوتی تھی تو رات کو بھی اکثر باہر رہتے تھے۔ ان کے ساتھ اکثر ان کے دوست اور ہمدم مولانا امام بخش صہبائی مرحوم ہوتے تھے. کتبوں کے چربے اُتارنے اور ہر ایک کتبے کو کو بعینہ اس کے اصلی خط میں دکھانا، ہر ٹوٹی پوُےٹی عمارت کا نقشہ جوں کا تُوں مصور سے کھچوانا اور اس طرح کچھ اُوپر سوا سو عمارتوں کی تحقیقات سے عہدہ بر آ ہونا فی الحقیقت نہایت دشوار کام تھا۔ سر سید کہتے تھے کہ:
"قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہ جا سکتے تھے، ان کے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا لیا جاتا تھا اور میں خود اُوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر ہر کتبے کا چربا اتارتا تھا۔ جس وقت میں چھینکے میں بیٹھتا تھا تو مولانا صہبائی فرطِ محبت کے سبب بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے ان کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا۔"