قرآن مجید کی تفسیر لکھنے سے سر سید کا مقصد، جیسا کہ عموماً خیال کیا جاتا ہے، یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کے مضامین عام طور پر تمام اہلِ اسلام کی نظر سے گزریں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی نہایت معقول اور ذی استعداد ان کے پاس آئے اور کہا کہ، "میں آپ کی تفسیر دیکھنے کا خواہشمند ہوں اگر آپ مستعار دیں تو میں دیکھنا چاہتا ہوں۔" سر سید نے ان سے کہا کہ
"آپ کو خدا کی وحدانیت اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت پر تو ضرور یقین ہو گا؟" انہوں نے کہا، "الحمد للہ!"
پھر کہا،
"آپ حشرونشر اور عذاب و ثواب اور بہشت و دوزخ پر اور جو کچھ قرآن میں قیامت کی نسبت بیان ہوا ہے، سب پر یقین رکھتے ہوں گے؟"
انہوں نے کہا، "الحمد للہ!"
سر سید نے کہا،
"بس تو میری تفسیر آپ کے لئے نہیں ہے۔ وہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو مذکورہ بالا عقائد پر پختہ یقین نہیں رکھتے یا ان پر معترض یا ان میں متردد ہیں۔"

سر سید نے ایک موقع پر تفسیر کی نسبت کہا کہ "اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے، اس کو کوئی کھول کر نہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں!"