مسٹر شیکسپیئر جو اس زمانہ میں بجنور کے کلکٹر اور مجسٹریٹ تھے، گو کہ سر سید کو باعتبار عہدے کے ان سے کچھ تعلق نہ تھا مگر مسٹر شیکسپیئر اور مسز شیکسپیئر سے ان کی بہت راہ و رسم تھی۔ جب بجنور میں بغاوت کے آثار نمودار ہونے لگے اور حالت خطرناک ہوئی تو مسز شیکسپیئر بہت گھبرائیں۔ سر سید کو جب یہ حال معلوم ہوا تو جا کر ان کی تشفی کی اور کہا کہ
"جب تک ہم زندہ ہیں آپ کو گھبرانا نہیں چاہیے۔ جب آپ دیکھیں کہ ہماری لاش کوٹھی کے سامنے پڑی ہے، اس وقت گھبرانے کا مضائقہ نہیں۔"

مسٹر شیکسپیئر ہمیشہ سر سید کی اس شریفانہ تقریر کے شکر گزار رہے۔ سر سید کا یہ کہنا صرف زبانی نہ تھا بلکہ انہوں نے اپنے افعال× سے اس قول کو سچ کر دکھایا۔

×: لائل محمڈنز آف انڈیا میں سر سید لکھتے ہیں:
"میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیرخواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی، ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کر دیا۔ دن رات صاحب کی کوٹھی پر حاضر رہتا تھا اور رات کو کوٹھی پر پہرہ دینا اور حکام کی اور میم صاحبہ اور بچوں کی حفاظت جان کا خاص اپنے ذمہ اہتمام لیا۔ ہم کو یاد نہیں ہے کہ دن رات میں کسی وقت ہمارے بدن پر سے ہتھیار اترا ہو۔" (لائل محمڈنز آف انڈیا حصہ اول مطبوعہ 1860ء، میرٹھ، صفحہ 13، 14)

آگے چل کر سر سید اپنی جاں نثاری کی آرزو کے دعوے کے ثبوت میں ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں،" دفعتاً 29 نمبر کی کمپنی سہارنپور سے بجنور میں آ گئی۔ میں اس وقت صاحب ممدوح پاس نہ تھا۔ دفعتاً میں نے سنا کہ فوج باغی آ گئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی۔ میں نے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہو گیا۔ مگر میں نے نہایت بری بات سمجھی کہ اس حادثہ سے الگ رہوں۔ میں ہتھیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو ایک لڑکا صغیر سِن (سر سید کے مرحوم بھائی کا لڑکا محمد احمد جو تنہا ان کے ساتھ رہتا تھا ضیاءالدین) تھا۔ میں نے اپنے آدمی کو وصیت کی، "میں تو مرنے جاتا ہوں، مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے، تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہنچا دیجیو۔" مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میں کچھ دریغ نہ تھا۔" (ایضاً ص 14، 15)

کوٹھی پر جا کر سر سید کو معلوم ہوا کہ افواہ غلط ہے اور وہ کمپنی دراصل بطور بدلی مراد آباد جاتی ہے۔(سرکشی ضلع بجنور مطبوعہ 1858ء، آگرہ، ص7)