بجنور میں باغی قرار دئے جانے کا معیار

بجنور میں انگریزوں کے چلے جانے کے بعد۔۔۔ بہت لڑائیاں اور خانہ جنگیاں ہوئی تھیں۔ کبھی ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملے کئے اور کبھی مسلمانوں نے ہندوؤں پر، اور آخر کو محمود خاں سب پر غالب آگیا تھا، اس لئے کچھ ہندو رئیس نواب سے شکست کھا کر میرٹھ چلے آئے تھے اور کچھ نواب نے قید کر لئے تھے۔ پس جب انگریزی فوج رُڑکی میں پہنچ لی اور روہیل کھنڈ پر چڑھائی کرنے کو تیار ہوئی تو وہاں یہ بحث پیش آئی کہ ضلع بجنور میں جو کہ روہیل کھنڈ کا سب سے پہلا ضلع ہے اور جہاں سب سے پہلے فوج جانے والی ہے، کون لوگ باغی تصور کئے جائیں؟۔۔۔ سر سید نے مسٹر شیکسپیئر اور بعض افسرانِ فوج سے اس باب میں گفتگو کی اور کہا کہ
"سرکار کے نزدیک باغی صرف وہی لوگ قرار پانے چاہیئں جو اب سرکار سے مقابلہ کے ساتھ پیش آئیں۔ باقی جو لڑائیاں اور فسادات رعایا نے ایک دوسرے سے کئے قانون کی رُو سے ان کی نسبت سے جو کچھ تجویز ہو سو ہو مگر انکی وجہ سے کسی کو سرکار کے مقابلہ میں باغی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میرے نزدیک بوقت داخل ہونے سرکاری فوج کے اگر کوئی مقابلہ نہ کرے اور سب لوگ مع نواب محمود خاں کے حاضر ہو جائیں تو ضلع بجنور کے کسی شخص کو باغی قرار دینا نہیں چاہیے۔"

اس پر بہت بحث ہوئی اور آخر یہ بات قرار پا گئی کہ جو لوگ سرکاری فوج کے مقابلہ میں آئیں، وہی باغی قرار دئے جائیں لیکن بدنصیبی سے آم سوت، نجیب آباد اور نگینے پر احمد اللہ خاں اور ماڑے خاں وغیرہ نے خفیف خفیف مقابلے کر کے ہزاروں کو لڑائی میں قتل کرایا اور تمام ضلع کی طرف سے سرکاری افسروں کو بد ظن کر دیا۔