انگریزوں کی ہندوستان میں آمد اور انگریزی حکومت کا استحکام

انگریزوں کو انہوں نے نہایت شدومد کے ساتھ رسالہ اسبابِ بغاوت میں متنبہ کیا تھا کہ ان کو ہندوستانیوں کے ساتھ دوستی اور صداقت کا برتاؤ رکھنا ضرور ہے۔ اس کے بعد ہمیشہ اپنی تحریروں اور پبلک اسپیچوں میں اس بات کی تمنا ظاہر کرتے رہے کہ ہمارے اور انگریزوں کے سوشل تعلقات برادرانہ اور دوستانہ ہونے چاہیئں، نہ حاکم محکومانہ۔ اس موقع پر ہم سر سید کی ایک مختصر اسپیچ، جو انہوں نے علی گڑھ میں ایک ڈنر پر مسٹر بلنٹ ممبر پارلیمنٹ کا جامِ صحت پروپوز کرتے وقت 1884ء میں کی تھی اور جس میں یہی تمنا خاص مسلمانوں کی طرف سے ایک لطیف پیرایہ میں ظاہر کی گئی تھی، بجنسہ نقل کرتے ہیں۔

سر سید نے کہا ×
"ہم کو نہایت خوشی ہے کہ مسٹر بلنٹ نے ہمارے ملک کو دیکھا، ہماری قوم کے مختلف گروہوں سے ملے، ہم کو امید ہے کہ انہوں نے ہر جگہ ہماری قوم کو تاجِ برطانیہ کا لائل اور کوئین وکٹوریا ایمپریس آف انڈیا کا دلی خیرخواہ پایا ہو گا۔ اگر ہماری کسی آرزو سے وہ واقف ہوئے ہوں گے تو وہ صرف انگریزوں کی طرف سے سمپتھی کی خواہش ہو گی جس کی نسبت بلاشبہ میں کہوں گا کہ ہماری وہ خواہش پورے طور پر پوری نہیں ہوئی۔"

"مسلمانوں کی یہ خواہش کہ مسلمانوں میں اور انگلش نیشن میں سمپتھی قائم ہو، کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ کبھی کوئی ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ جو ہم مسلمانوں میں اور انگلش نیشن میں کوئی معرکہ ایسا گزرا ہو کہ ہم میں اور ان میں کوئی بنائے مخاصمت قائم ہوئی ہو، ان کو ہم سے بدلہ لینے کی رغبت ہو اور ہم کو ان کے عروجِ اقبال سے رشک و حسد ہو۔ کروسیڈ کے زمانہ میں، جو ایک زمانہ ہر قسم کی عداوتوں کے برانگیختہ ہونے کا تھا، انگلش کو بہت ہی کم ان معرکوں سے تعلق تھا۔"

"یہ بات سچ ہے کہ ہم نے ہندوستان میں کئی صدیوں تک شہنشاہی کی۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کی شان و شوکت کو نہیں بھول سکتے، لیکن اگر یہ خیال کسی شخص کے دل میں ہو کہ ہم مسلمانوں کو انگلش نیشن کے ساتھ، اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری جگہ ہندوستان کی حکومت حاصل کی، کچھ رشک و حسد ہے تو وہ خیال محض بے بنیاد ہو گا۔ وہ زمانہ جس میں انگریزی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی، ایسا زمانہ تھا کہ بے چاری انڈیا بیوہ ہو چکی تھی، اس کو ایک شوہر کی ضرورت تھی، اس نے خود انگلش نیشن کو اپنا شوہر بنانا پسند کیا تھا تا کہ گاسپل کے عہد نامہ کے مطابق وہ دونوں مل کر ایک تن ہوں۔، مگر اس وقت اس پر کچھ کہنا ضرور نہیں ہے کہ انگلش نیشن نے اس پاک وعدہ کو کہاں تک پورا کیا۔"

"ہندوستان میں ہم نے اپنے ملک کی بھلائی کے واسطے انگلش حکومت قائم کی۔ ہندوستان میں انگلش حکومت قائم ہونے میں ہم اور وہ مثلِ قینچی کے دو پلڑوں کے شریک تھے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں میں کس نے زیادہ کام کیا ہے۔ پس ہم مسلمانوں کی نسبت ایسا خیال کرنا، کہ ہم انگلش حکومت کو ایک ناگواری سے دیکھتے ہیں، محض ایک خیال غلط ہو گا۔"

"انگلش نیشن ہمارے مفتوحہ علاقے میں آئی مگر مثلِ ایک دوست کے، نہ بطور ایک دشمن کے۔ہماری خواہش ہے کہ ہندوستان میں انگلش حکومت صرف ایک زمانہ دراز تک ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کے لئے (ہے)۔ ہماری یہ آرزو انگریزوں کی بھلائی یا ان کی خوشامد کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنے ملک کی بھلائی اور بہتری ہی کے لئے ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم میں اور ان میں سمپتھی نہ ہو۔ سمپتھی سے میری مراد پولیٹیکل سمپتھی نہیں ہے۔ پولیٹیکل سمپتھی تانبے کے برتن پر چاندی کے ملمع سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتی۔ اس کا اثر دونوں (فریق) کے دلوں میں کچھ نہیں ہوتا، ایک فریق جانتا ہے کہ وہ تانبے کا برتن ہے، دوسرا فریق سمجھتا ہے کہ وہ جھوٹے ملمع کی قلعی ہے۔ سمپتھی سے میری مراد برادرانہ و دوستانہ سمپتھی ہے۔"

×: سر سید کی یہ تقریر ان کے لیکچرز یا خطبات کے کسی مجموعے میں شامل نہیں، چونکہ اس تقریر کے بعض الفاظ پر سر سید اور حالی کے تبصروں کا مفہوم سمجھنا اس کے مطالعہ کے بغیر ممکن نہ تھا اس لئے اسے ملفوظات میں شامل کیا گیا ہے۔

سر سید کہتے تھے کہ
"یہ اسپیچ جب اخبار میں سر ایلفرڈ لائل لفٹننٹ گورنر کی نظر سے گزری اور اس کے بعد میں ان سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے یہ عجب طرح کی اسپیچ دی تھی۔ میں نے کہا شاید عجب ہو، مگر غلط نہیں تھی۔"

غالباً۔۔۔۔۔۔ کو اسپیچ مذ کور کے اس فقرہ پر تعجب ہوا ہو گا کہ “انگلش حکومت کے قائم ہونے میں ہم اور وہ مثلِ قینچی کے دو پلڑوں کے شریک تھے۔“ شاید عام لوگ سر سید کی اس تلمیح سے آگاہ نہ ہوں اس لئے اس کا جو مطلب ہم سمجھے ہیں اس کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں۔ غالباً سر سید نے اس فقرہ میں ہندوستان کے ان تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ممالکِ ہندوستان کی ابتدائی انگریزی فتوحات اور سرکار کمپنی کے رعب و داب اور اس کی پالیسی کو مسلمان امیروں اور حکمرانوں کی تائید اور آشتی سے بہت مدد ملی ہے، جیسے پلاسی کی لڑائی میں میر جعفر کا بمقابلہ سراج الدولہ کے لارڈ کلائیو کا ساتھ دینا، شاہِ عالم کا مرہٹوں کے مقابلہ کے وقت اپنے تئیں لارڈ لیک کی حفاظت میں سپرد کر دینا اور نظام حیدرآباد کا لارڈ ولزلی کی صلاح ماننا اور تمام فرانسیسوپں کی فوج کو اپنی قلمرو سے یک قلم موقوف کرنا وغیرہ وغیرہ۔

ان کی نہایت پُختہ رائے تھی کہ ہندوستان کے لئے انگلش گورنمنٹ سے بہتر، گو کہ اس میں کچھ نقص بھی ہوں، کوئی گورنمنٹ نہیں ہو سکتی۔ اور اگر امن و امان کے ساتھ ہندوستان کچھ ترقی کر سکتا ہے تو انگلش گورنمنٹ ہی کے ماتحت رہ کر کر سکتا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ:
"گو ہندوستان کی حکومت کرنے میں انگریزوں کو متعدد لڑائیاں لڑنی پڑی ہوں مگر درحقیقت نہ انہوں نے یہاں کی حکومت بزور حاصل کی اور نہ مکر و فریب سے، بلکہ درحقیقت ہندوستان کو کسی حاکم کی اس کے اصلی معنوں میں ضرورت تھی، سو اسی ضرورت نے ہندوستان کو ان کا محکوم بنا دیا۔"

انہوں نے کئی موقعوں پر یہ ظاہر کیا ہے کہ:
"میں ہندوستان میں انگلش گورنمنٹ کا استحکام کچھ انگریزوں کی محبت اور ان کی ہوا خواہی کی نظر سے نہیں چاہتا بلکہ صرف اس لئے چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی خیر اس کے استحکام میں سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اگر وہ اپنی حالت سے نکل سکتے ہیں تو انگلش گورنمنٹ ہی کی بدولت نکل سکتے ہیں۔"