۔۔۔ سر سید ایک ایسی جُرأت کر بیٹھے جس کی بدولت آخرکار ان کو گورنمنٹ سے معافی مانگنی پڑی۔ فروری 67ء میں جبکہ ڈریمنڈ صاحب اضلاع شمال مغرب میں لفٹیننٹ گورنر تھے، آگرہ میں ایک بڑی نمائش ہوئی تھی اور سر سید بھی منتظم کمیٹی کے ایک ممبر تھے۔ اس کمیٹی میں ان کے سوا اور بھی چند معزز ہندوستانی انگریزوں کے ساتھ شامل تھے اور تمام ممبروں کو یکساں اختیار دئے گئے تھے، کسی طرح کا تفاوت انگریزوں اور ہندوستانی ممبروں میں نہ تھا۔ نمائش کی اخیر تاریخ دربار کے لئے مقرر تھی اور دربار کا انتظام مسٹر پالک کلکٹر ضلع آگرہ کے سپرد تھا۔ صاحبِ موصوف نے نمائش گاہ کے قریب ایک میدان میں درباریوں کے لئے کُرسیاں اس طرح بچھوائیں کہ جو مقام کسی قدر بلند تھا، کرسیوں کی ایک لائن تو اس مقام پر لگائی اور اس پر ایک شامیانہ بھی، جس سے دھوپ کی روک ہو، کھچوا دیا اور دوسری لائن اسی کے متوازی مگر اس سے ذرا نیچی جگہ پر لگوائی جس پر شامیانہ وغیرہ کچھ نہ تھا۔ سر سید نے اکثر ہندوستانی درباریوں کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ اس موقع پر گورنمنٹ کو یہ منظور ہے کہ انگریزوں اور ہندوستانیوں میں کچھ تمیز نہ رکھی جائے، اور سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کیا جائے۔

درباریوں میں سے ایک معزز ہندوستانی شائد دربار سے ایک دن پہلے چلتے پھرتے دربار کے میدان کی طرف جا نکلے اور اتفاق سے اُوپر کی لائن میں ایک کُرسی پر بیٹھ گئے۔ ایک بابُو نے آ کر ان کو وہاں سے اُٹھا دیا اور کہا کہ، "آپ کے واسطے نیچے کی لائن لگائی گئی ہے۔" وہ وہاں سے سیدھے سر سید کے پاس آئے اور حال بیان کیا اور یہ کہا کہ، "آپ کا خیال انگریزوں اور ہندوستانیوں کی مساوات کے باب میں صحیح نہ تھا۔" سر سید کو نہایت تعجب اور اس کے ساتھ سخت ندامت ہوئی کہ جو کچھ لوگوں کو یقین دلایا گیا وہ غلط ہو گیا.

یہ (سر سید) اسی وقت دربار کے میدان میں پہنچے اور قصداً اُوپر کی لائن میں ایک کُرسی پر جا بیٹھے۔ بابو نے آ کر ان کو بھی ٹوکا۔ یہ وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور مسٹر جیمس سمسن سیکرٹری گورنمنٹ سے، جو وہیں دربار کے ٹکٹ بانٹ رہے تھے، سارا حال بیان کیا، انہوں نے بھی اس امر کو ناپسند کیا اور سر سید سے کہا کہ آپ اس کا ذکر مسٹر پالک سے کریں۔ اتنے ہی میں مسٹر تھارن ہل صدر بورڈ کے حاکمِ اعلیٰ وہیں چلے آئے، جب اُن کو یہ قصہ معلوم ہوا تو وہ سر سید پر نہایت افروختہ ہوئے اور کہا کہ تم لوگوں نے غدر میں کون سی بُرائی تھی جو ہمارے ساتھ نہیں کی؟ اب تم یہ چاہتے ہو کہ ہمارے اور ہماری عورتوں کے ساتھ پہلو بہ پہلو دربار میں بیٹھو؟

سر سید نے کہا
“اسی سبب سے تو یہ ساری خرابیاں پیدا ہوئیں کہ آپ لوگ ہندوستانیوں کو ذلیل سمجھتے رہے، اگر ان کو اس طرح ذلیل نہ سمجھا جاتا تو کیوں یہاں تک نوبت پہنچتی۔“

تھارن ہل صاحب اور زیادہ برہم ہوئے۔ آخر مسٹر جیمس سمسن نے سر سید کو سمجھایا کہ اس گفتگو سے کچھ فائدہ نہیں۔ سر سید وہاں سے اپنے ڈیرے میں چلے آئے اور دربار میں شریک نہیں ہوئے۔

لیکن یہ خبر لیفٹننٹ گورنر کو پہنچی تو انہوں نے بھی دربار کی ترتیب اور انتظام کو ناپسند کیا اور حکم دیا کہ اس وقت زیادہ تبدیلی تو نہیں ہو سکتی لیکن ہر ضلع اور قسمت کے حکام کو چاہیے کہ اپنے اپنے ضلع اور قسمت کے ہندوستانی رئیسوں اور افسروں کے ساتھ نیچے کی لائن میں بیٹھیں۔

دربار کے بعد جو یورپین افسر سر سید سے ملتا تھا، اس واقعہ کو پوچھتا تھا اور جب وہ بیان کرتے تھے تو بگڑتا تھا۔ لاچار انہوں نے وہاں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور رات کو وہاں سے سوار ہو کر علی گڑھ چلے آئے

مگر چند روز بعد لوکل گورنمنٹ کے سیکرٹری کی چٹھی سر سید کے نام پہنچی، جس میں ان سے اس بات کا جواب طلب کیا گیا تھا کہ تم دربار میں کیوں نہیں شریک ہوئے اور بلا اجازت کس لئے علی گڑھ چلے گئے؟

سر سید نے آگرہ سے بلا اجازت چلے آنے کا سبب لکھ بھیجا اور دربار میں شریک نہ ہونے کی معافی چاہی۔ اس کے بعد پھر وہاں سے کچھ باز پُرس نہیں ہوئی مگر اس نمائش سے پہلے جو لارڈ لارنس مرحوم وائسرائے و گورنر جنرل نے آگرہ میں دربار کیا تھا، وہاں سر سید کو ایک طلائی تمغہ دئے جانے کا حکم تھا اور تمغہ اب تیار ہوا تھا۔ چُونکہ سر سید دربار میں شریک نہیں ہوئے تھے اس لئے نواب لفٹیننٹ گورنر نے وہ تمغہ صاحب کمشنر قسمت میرٹھ کو دے دیا تاکہ وہ میرٹھ جاتے ہوئے علی گڑھ میں سر سید کو اپنے ہاتھ سے تمغہ پہناتے جائیں۔ صاحبِ کمشنر جب علی گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو سر سید حسب الحکم وہاں موجود تھے۔ ان کو ایک طرف لے جا کر بسبب اس رنجش کے جو تھارن ہل صاحب سے انہوں نے سخت گفتگو کی تھی، یہ کہا کہ، “اگر چہ میں تم کو اپنے ہاتھ سے تمغہ پہنانا پسند نہیں کرتا لیکن گورنمنٹ کے حکم سے مجبور ہوں۔“ یہ کہہ کر سر سید کو تمغہ پہنانا چاہا، سر سید نے یہ کہہ کر کہ
“میں بھی گورنمنٹ کے حکم سے مجبور ہوں۔“

اُن کے آگے سر جھکا دیا اور تمغہ پہن کر چلے آئے۔