سر سید کا برتاؤ افسروں کے ساتھ ابتداء سے اخیر تک نہایت آزادانہ رہا۔ وہ اپنے افسروں کا ادب اور تعظیم اور کارِ سرکار میں ان کی اطاعت، جیسی کہ چاہیے، ہمیشہ کرتے تھے مگر ان کا بے جا دباؤ بھی نہیں مانا اور بے موقع کبھی ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔

غدر سے بہت پہلے، جبکہ دلی میں جان پاٹن گبنس سیشن جج اور سر سید منصف تھے، قسمتِ دہلی کے دو جاگیردار بھائیوں میں، جن میں سے ایک سر سید کا گہرا دوست تھا، جاگیر کی بابت سخت نزاع تھا اور ان کا جھگڑا گورنمنٹ میں پیش تھا۔ دوسرے بھائی نے جج صاحب سے شکایت کی کہ میرے بھائی کو سید احمد خاں بہکاتا اور ہر قسم کی مدد دیتا ہے، اس کو آپ سمجھا دیں کہ جب تک ہمارا جھگڑا عدالت سے طے نہ ہو جائے وہ میرے چھوٹے بھائی سے ملنا چھوڑ دے۔“

جان پاٹن گبنس کے طنطنے اور رعب داب کی تمام قسمت میں دھاک تھی اور اُن کے کسی ماتحت کی یہ مجال نہ تھی کہ اُن کا کہنا نہ مانے۔ انہوں نے ایک روز سر سید کو بلا کر سمجھایا کہ جب تک یہ نزاع رفع نہ ہو، تم اپنے دوست سے ملنا چھوڑ دو، سر سید نے صاف کہہ دیا کہ
“میں بے شک آپ کا ماتحت ہوں، سرکاری معاملات میں جو کچھ آپ ہدایت کریں گے اس کی بسر و چشم تعمیل کروں گا مگر میرے ذاتی تعلقات میں آپ کو دخل دینا نہیں چاہئے۔ اگر آپ کہیں کہ تم چند روز کو اپنی ماں اور بہن سے ملنا چھوڑ دو تو میں کیونکر آپ کے حکم کی تعمیل کر سکتا ہوں۔“

اگرچہ انگریزوں میں ہندوستان کی آب و ہوا تحکم اور خوشامد پسندی پیدا کر دیتی ہے مگر چُونکہ آزادی انکی گھُٹی میں پڑی ہوئی ہوتی ہے، وہ ایسے آزاد شخصوں کی آخرکار قدر کرنے لگتے ہیں اور برخلاف عام اشخاص کے ان کے ساتھ خاص قسم کا برتاؤ برتتے ہیں۔ جب صاحب جج نے یہ معقول عذر سنا پھر کبھی ان پر ایسا بے جا دباؤ نہیں ڈالا۔