مدرسہ کے لئے انہوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کئے۔۔۔ہزارہا روپیہ ان سفروں میں ان کا صرف ہوا۔ اگرچہ ان کے دوست اور رفیق بھی، جو ان کے ہمراہ جاتے تھے، اپنا اپنا خرچ اپنی گرہ سے اُٹھاتے تھے لیکن وہ اکثر بدلتے رہتے تھے اور سر سید کا ہر سفر میں ہونا ضروری تھا۔ اس کے سوا ہمیشہ ریزروڈ گاڑیوں میں سفر ہوتا تھا اور جس قدر سواریاں کم ہوتی تھیں اُن کی کمی زیادہ تر سر سید کو پوری کرنی پڑتی تھی۔ ایک بار اُن کے ایک دوست نے اُن سے کہا کہ آپ راجپُوتانہ کا بھی ایک بار دورہ کیجئے۔“ سر سید نے کہا، "روپیہ نہیں ہے۔" اُن کے منہ سے نکلا کہ جب آپ کالج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا سفرِ خرچ کمیٹی کو دینا چاہئے۔“ سر سید نے کہا:

"میں اس بات کو ہرگز گوارہ نہیں کر سکتا۔ مدرسہ چلے یا نہ چلے مگر میں اسی حالت میں مدرسہ کے لئے سفر کر سکتا ہوں جب سفر کے کل اخراجات اپنے پاس سے اُٹھا سکوں۔"