چندہ وصول کرنے کے موقع پر انہوں نے کبھی اس بات کا خیال نہیں کیا کہ میں کون ہون اور کس طرح مانگتا ہوں؟ نمائش گاہِ علی گڑھ میں انہوں نے کتابوں کی دکان لگائی اور خود کتابیں بیچنے کے لئے دوکان پر بیٹھے۔ نیشنل والنٹیئر بن کر گلے میں جھولی ڈالی۔ پینی ریڈنگ کا جلسہ اس لئے قرار دیا گیا تھا کہ غریب طالب علموں کے وظیفہ کے لئے کچھ سرمایہ جمع کیا جائے۔ جب اس جلسہ کی تجویز ٹھہری تو دوستوں نے منع کیا کہ ایسا ہرگز نہ کیجئے گا، لوگ مطعون کریں گے اور تماشے والا کہیں گے، اخباروں میں ہنسی اُڑائی جائے گی، سر سید نے کہا:
"اگر میں لوگوں کے کہنے کا خیال کرتا تو جو کچھ اب تک کیا ہے، اس میں سے کچھ بھی نہ کر سکتا۔ لوگوں کے کہنے کا کچھ خیال نہ کرو، بلکہ یہ دیکھو کہ اس سے درحقیقت قوم کو فائدہ پہنچے گا یا نہیں۔“