چندہ کے علاوہ جب کبھی ان کو دوستوں سے کچھ اُچک لینے کا موقع ملا، انہوں نے اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ:

"خانہ دوستاں بروب و درِ دشمناں مکوب“

"ایک روز مسٹر تھیوڈور بک× کے والد جو، سیاحت کے لئے ہندوستان میں آئے ہوئے تھے، ایک خاص سکہ کی اشرفی دوستانہ طور پر مولوی زین العابدین کو دینی چاہتے تھے اور وہ اُس کے لینے سے انکار کرتے تھے۔ آخر دونوں صاحب سر سید کے پاس آئے اور واقعہ بیان کیا۔ سر سید نے بہت بدمزہ ہو کر کہا کہ:
"دوستوں کے ہدیہ کو رد کرنا نہایت بد اخلاقی کی بات ہے۔“
انہوں نے وہ اشرفی لے لی، سر سید نے کہا:
"دیکھوں کس سکہ کی اشرفی ہے؟“
اور اُن سے لے کر مدرسہ کے کھاتہ میں جمع کر دی۔

اسی طرح ایک دن سید محمود نے قاضی رضا حسین مرحوم سے کسی بات پر پچاس روپیہ کی شرط باندھی اور یہ ٹھہرا کہ جو ہارے، پچاس روپیہ مدرسہ میں دے۔ اتفاق سے سید محمود ہار گئے، وہ سو رُوپیہ کا نوٹ لے کر آئے اور قاضی صاحب سے کہا کہ
"پچاس روپیہ دیجیئے اور نوٹ لیجئے۔“
انہوں نے کہا کہ
"وہ تو ہنسی کی بات تھی، کیسی شرط اور کیسا روپیہ؟ دوسرے شرط بِدنا جائز بھی نہیں ہے۔“

سر سید بھی وہیں موجود تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ روپیہ مدرسہ میں آتا ہے، فرمایا کہ: "جس شرط میں اپنا فائدہ ملحوظ نہ ہو وہ جائز ہے۔“

اور فورا بکس میں سے پچاس رُوپے نکال کر سید محمود کو دے دئے اور نوٹ لے لیا۔ 58

ایک بار مدرسہ کے کسی کام کے لئے چندہ کھولا گیا۔ سر سید نے اپنے قدیم دوست مولوی سید زین العابدین خاں سے چندہ کا تقاضا کیا۔ انہوں نے بدمزہ ہو کر کہا "صاحب، ہم تو چندہ دیتے دیتے تھک گئے۔“

سر سید نے کہا:
"ارے میاں! اب کوئی دن میں ہم مر جائیں گے، پھر کون تم سے چندہ مانگے گا۔“

یہ الفاظ کچھ ایسے طور پر کہے گئے کہ دونوں آبدیدہ ہو گئے اور چندہ فورا ادا کیا گیا۔