دوستوں کے علاوہ اجنبی اور انجان آدمی، جن سے کچھ وصول ہونے کی امید ہوتی تھی، شاید پہلی ایک آدھ ملاقات میں ان کی باری نہ آتی ہو، ورنہ اکثر صاحبِ سلامت ہوتے ہی سوال ڈالا جاتا تھا اور اس میں کچھ مسلمان ہونے ہی کی خصوصیت نہ تھی، بلکہ انگریزوں سے بھی بعض اوقات یہی برتاؤ ہوتا تھا۔ ایک بار سر سید نے ایک محض اجنبی مسافر انگریز سے، جو ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا تھا، چندہ طلب کیا اس نے بہت روکھے پن سے یہ جواب دیا کہ
"آپ کو اس کام کے لئے صرف اپنی قوم سے مانگنا چاہئے۔“

سر سید نے کہا:
"بے شک ہم کو قوم کی پست ہمتی سے غیروں کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اگر یہ انسٹی ٹیوشن بغیر انگریزوں کی اعانت کے قائم ہو گیا تو انگریزوں کے لئے کوئی ذلت کی بات اس سے زیادہ نہ ہو گی کہ وہ باوجودیکہ ہندوستان کی حکومت سے بے انتہا فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر ہندوستانیوں کی بھلائی کے کاموں میں مطلق شریک نہیں ہوتے۔“

وہ انگریز سن کر شرمندہ ہوا اور اُسی وقت ایک نوٹ بیس روپے کا سر سید کی نذر کیا۔