انگریزوں کے ساتھ کھانے پر عام رد عمل

سر سید نے انگریزوں کے ساتھ کھانے پینے کا پرہیز چھوڑ دیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ:
"بجنور فتح ہونے کے بعد میں اور مسٹر پامر مجسٹریٹ ضلع بجنور، نجیب آباد سے بجنور کو آتے تھے۔ راستہ میں ایک جگہ ہم دونوں اُترے اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ مسٹر پامر نے مجھ سے پُوچھا کہ
"چائے پیو گے؟
میں نے کہا کہ یہاں چائے کہاں؟ انہوں نے کہا
"ہمارے ساتھ بنی ہوئی بوتل میں موجود ہے"
میں نے کہا،
"بہت بہتر"

غرض کہ ہم نے چائے پی اور ایک آدھ توس کھایا۔ وہاں سے چل کر نگینے میں مقام ہوا۔ عصر کے وقت سب لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں بھی جا کر جماعت میں شریک ہو گیا. نماز کے بعد لوگوں نے مولوی قادر علی تحصیل دار سے، جو نماز میں شریک تھے، پوچھا کہ صدر امین نے تو انگریز کے ہاں کی بنی ہوئی چائے پی ہے اور توس کھائے ہیں، پھر یہ نماز میں کیونکر شریک ہوئے؟ جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ان کو سمجھایا کہ قرآن کی رُو سے انگریزوں کے ہاں کا کھانا اور ان کے ساتھ کھانا درست ہے. ان لوگوں نے میری اس روز کی تقریر کو نہایت تعجب سے سنا، پھر ایک روز بجنور میں رات کو مسٹر پامر کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا، وہ کھانے پر جانے والے تھے انہوں نے کہا کہ تم بھی یہیں کھانا کھا لو۔" اور خانساماں کو اشارہ کیا کہ میرے سامنے بھی رکابی لگا دے. خانساماں کو اس بات سے ایسا تعجب ہوا کہ کئی دفعہ اشارہ کرنے پر بھی نہ سمجھا کہ آج ایک مسلمان انگریز کے ساتھ کھانا کھائے گا۔"

پھر لندن جانے پہلے جب انہوں نے ایک رسالہ احکامِ طعامِ اہلِ کتاب پر لکھ کر شایع کیا تو عموماً ان کو کرسٹان کا خطاب× دیا گیا اور جا بجا اس کے چرچے ہونے لگے. جب ولایت کے سفر میں چند روز باقی رہ گئے تو انہوں نے اس خیال سے کہ انگریزی طریقہ پر کھانا کھانے سے بخوبی واقفیت ہو جائے، یہ معمول باندھ لیا تھا کہ مسٹر سماتیہ جو بنارس میں ایک سوداگر تھے اور سر سید کی کوٹھی سے ان کی کوٹھی ملی ہوئی تھی، ایک دن یہ شام کا کھانا ان کے گھر پر جا کر کھاتے تھے اور ایک دن وہ ان کے گھر پر آ کر کھاتے تھے. سر سید کہتے تھے کہ:
"اتفاق سے ان ہی دنوں میں مولوی سید مہدی علی خان مرزا پور سے بنارس میں مجھ سے ملنے کو آئے. رات کا وقت تھا اور میرے ہاں کھانے کی باری تھی، ہم دونوں میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ مہدی علی آ پہنچے. یہ پہلی دفعہ تھی کہ مولوی مہدی علی نے ایک مسلمان کو اس طرح ایک انگریز کے ساتھ کھانا کھاتے دیکھا تھا. سخت نفرت ہوئی اور باوجود میرے ہاں مہمان ہونے کے کھانا نہ کھایا اور کہا کہ میں کھا چکا ہوں.

"صبح کو مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے اس وجہ سے کھانا نہیں کھایا. میں نے کہا کہ اگر آپ کو یہ طریقہ ناپسند ہو تو دوسرا بندوبست کیا جائے؟" انہوں نے سوچا کہ شرعاً تو ممنوع نہیں ہے، صرف عادت کے خلاف دیکھنے سے نفرت ہوئی ہے، آخر قبول کر لیا اور سب سے پہلی دفعہ دن کا کھانا میرے ساتھ میز پر کھایا۔ دن تو اس طرح گزر گیا مگر رات کو یہ مشکل پیش آئی کہ رات کا کھانا مسٹر سماتیہ کے ہاں تھا. میں نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ کو وہاں کھانے میں تامل ہو تو یہاں انتظام کیا جائے؟" انہوں نے پھر اسی خیال سے کہ شرعاً ممنوع نہیں، اقرار کر لیا کہ میں بھی وہیں کھا لوں گا، چنانچہ رات کو وہیں کھانا کھایا. پھر ایک آدھ روز بعد مرزا پور واپس چلے گئے."

الہ آباد میں ان کے ایک دوست کو یہ حال معلوم ہو گیا، انہوں نے خط لکھ کر دریافت کیا کہ کیا یہ خبر سچ ہے؟ مولوی مہدی علی نے سارا حال مفصل لکھ بھیجا. انہوں نے وہ خط بجنسہ ہمارے ایک نامہربان دوست کے پاس، جو اٹاوہ میں رونق افروز تھے، بھیج دیا. انہوں نے تمام شہر میں ڈھنڈورہ پیٹ دیا کہ مہدی علی کرسٹان ہو گئے. مولوی صاحب کے گھر کے پاس ہی ایک پینٹھ لگا کرتی تھی. ہمارے شفیق نامہربان نے اس گنوار دل میں جا کر خط کا مضمون ایک ایک آدمی کو سنایا اور تمام پینٹھ میں منادی کر دی کہ بھائیو! افسوس ہے، مولوی مہدی علی کرسٹان ہو گئے. جو سنتا تھا افسوس کرتا تھا اور کہتا تھا، خدا سید احمد خاں پر لعنت کرے."

اس خبر کا مشہور ہونا تھا کہ مولوی صاحب کے گھر پر حلال خور نے کمانا، سقے نے پانی بھرنا، اور سب لگے بندھوں نے آنا جانا چھوڑ دیا. گھر والوں نے ان کو لکھا کہ تمہاری بدولت ہم پر سخت تکلیف گزر رہی ہے، تم جلدی آؤ اور اس تکلیف کو رفع کرو۔" انہوں نے ایک طول طویل خط ان ہی بزرگ کو جنھوں نے یہ افواہ اڑائی تھی حلت طعامِ اہلِ کتاب کے باب میں لکھا اور پھر خود اٹاوہ میں آئے اور سب کو سمجھایا کہ میں کرسٹان نہیں ہوں، جیسا پہلے مسلمان تھا ویسا ہی اب ہوں، غرض بڑی مشکل سے لوگوں کا شبہ رفع کیا."

×: اس خطاب کے پس منظر میں مذ کورہ رسالہ میں سر سید کی اس قسم کی تحریریں تھیں: " اگر اہلِ کتاب کسی جانور کی گردن توڑ کر مار ڈالنا یا سر پھاڑ کر مار ڈالنا زکوٰۃ سمجھتے ہوں تو ہم مسلمانوں کو اس کا کھانا درست ہے."

(احکامِ طعامِ اہلِ کتاب، مطبوعہ 1868ء کان پور، ص 17)