جب سر سید کے کفر و ارتداد اور واجب القتل ہونے کے فتوے اطرافِ ہندوستان میں شائع ہوئے تو ان کی جان لینے کی دھمکیوں کے گمنام خطوط ان کے پاس آنے لگے. اکثر خطوں کا یہ مضمون تھا کہ ہم نے اس بات پر قرآن اُٹھایا ہے کہ تم کو مار ڈالیں گے. ایک خط میں لکھا تھا کہ شیر علی جس نے لارڈ میو کو مارا تھا، اس نے نہایت حماقت کی، اگر وہ تم کو مار ڈالتا تو یقینی بہشت میں پہنچ گیا ہوتا."

1891ء میں جبکہ سر سید کالج کی طرف سے ایک ڈپوٹیشن لے کر حیدرآباد گئے تھے اور حضور نظام (خلد اللہ) ملکہ کے ہاں بشیر باغ میں مہمان تھے، ایک مولوی نے ہمارے سامنے سر سید سے ذکر کیا کہ کلکتہ میں ایک مسلمان تاجر نے آپ کے قتل کا مصمم ارادہ کر لیا تھا اور ایک شخص کو اس کام پر مامور کرنا چاہتا تھا. اس بات کی مجھ کو بھی خبر ہوئی، چونکہ میں علی گڑھ کی طرف آنے والا تھا، اس سے خود جا کر ملا اور اس سے کہا کہ میں علی گڑھ جانے والا ہوں اور میرا ارادہ سید احمد خاں سے ملنے کا ہے. جب تک میں ان کے عقائد اور مذہبی خیالات دریافت کر کے آپ کو اطلاع نہ دوں، آپ اس ارادہ سے باز رہیں. چنانچہ میں علی گڑھ میں آیا اور آپ سے ملا اور بعد دریافتِ حالات کے اس کو لکھ بھیجا کہ سید احمد خاں میں کوئی بات میں نے اسلام کے خلاف نہیں پائی. تم کو چاہئے کہ اپنے منصوبے سے توبہ کرو اور اپنے خیال خام سے نادم ہو۔"

معلوم نہیں کہ اس مولوی کا یہ بیان صحیح تھا یا غلط مگر سر سید نے جو یہ حال سن کر اس کو جواب دیا وہ لطف سے خالی نہ تھا. انہوں نے کہا کہ: ”افسوس ہے کہ آپ نے اس دین دار مسلمان کو اس ارادہ سے روک دیا اور ہم کو ہمارے بزرگوں کی میراث سے، جو ہمیشہ اپنے بھائی مسلمانوں ہی کے ہاتھ سے قتل ہوتے رہے ہیں، محروم رکھا."