بعض اوقات سرسید کسی مسئلہ کی نسبت اپنے عقیدہ کا اظہار ظرافت کے پیرایہ میں ایسے طور پر کر جاتے تھے کہ بظاہر ایک ہنسی کی بات معلوم ہوتی تھی۔ مگر درحقیقت وہ اُن کی اصلی رائے اس مسئلہ کی نسبت ہوتی تھی۔ جس زمانہ میں وہ بنارس میں تھے ان کا ایک آرٹیکل "تہذیب الاخلاق" میں اس مضمون پر شایع ہوا تھا کہ اجماع، جیسا کہ اہل سنت سمجھتے ہیں، حجت شرعی نہیں ہے۔ شیعوں میں سے ایک سید صاحب جو بنارس میں ملازم تھے، اس آرٹیکل کو پڑھ کر خوشی خوشی ان سے ملنے کو آئے، پہلے کبھی اُن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، سرسید سے اس آرٹیکل کا ذکر کر کے کہنے لگے "کیوں جناب! جب آپ کے نزدیک اجماع حجت نہیں تو خلیفہ اول کی خلافت کیوں کر ثابت ہو گی؟" سرسید نے کہا:
"حضرت ! نہ ہو گی تو ان کی نہ ہو گی، میرا کیا بگڑے گا؟"

وہ یہ سُن کر اور بھی زیادہ خوش ہوئے اور سمجھے کہ کچھ پانی مرتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے " کیوں جناب! اس اختلاف کے وقت جبکہ کچھ لوگ خلیفہ اول کا ہونا چاہتے تھے اور کچھ جناب امیر کا۔ اگر آپ اس وقت ہوتے تو کس کے لیے کوشش کرتے؟" سرسید نے کہا:
"حضرت ! مجھے کیا غرض تھی کہ کسی کے لیے کوشش کرتا، مُجھ سے تو جہاں تک ہو سکتا اپنی ہی خلافت کا ڈول ڈالتا اور سو بسوے کامیاب ہوتا۔"
یہ سُن کر اُن کا جی چُھوٹ گیا اور جوتیاں پہن گھر کا رستہ لیا۔