ہندو مسلمانوں میں عناد بڑھ جانے کی پیشن گوئی

1867ء میں بنارس کے بعض سربرآوردہ ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری عدالتوں میں سے اردو زبان اور فارسی خط کے موقوف کرانے میں کوشش کی جائے اور بجائے اُس کے بھاشا زبان جاری ہو جو دیوناگری میں لکھی جائے.

سر سید کہتے تھے کہ:
”یہ پہلا موقع تھا جب کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لئے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے۔"

سر سید نے کہا:
”اب وہ وقت قریب ہے کہ ہمیشہ چُپ رہنا ہو گا، اس لئے خاموش رہنے کی عادت ڈالتا ہوں۔“