بابو گوپی ناتھ

بابوگوپی ناتھ سے میری ملاقات سن چالیس میں ہوئی، ان دنوں میں بمبئی کا ایک ہفتہ وار چرچہ ایڈٹ کیا کرتا تھا، دفتر میں عبدالرحیم سینڈو ایک ناٹے آدمی کے ساتھ داخل ہوا میں اس وقت لیڈ لکھ رہا تھا، سینڈو نے اپنے مخصوص انداز میں با آواز بلند مجھے آداب کیا اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا، منٹو صاحب بابو گوپی ناتھ سے ملئے۔

میں نے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا، سینڈو نے حسب عادت میری تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دئیے، بابو گوپی ناتھ، تم ہندوستان کے نمبر ون رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو، لکھتا ہے تو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے لوگوں کا، ایسی ایسی کنٹی نیو ٹلی ملاتا ہے کہ طبعیت صاف ہو جاتی ہے، پچھلے دنوں کیا چٹکلہ لکھا تھا، آپ نے منٹو صاحب، مس خورشید نے کار خریدی، اللہ بڑا کار ساز ہے، کیوں بابو گوپی ناتھ ہے نہ اینٹی پینٹی پو؟

عبدلرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا انداز بالکل نرالا تھا، کنٹی نیو ٹلی، دھڑن تختہ اور اینٹی پینٹی پو ایسے الفاظ اس کی اپنی اختراع تھے، جن کو وہ گفتگو میں بے تلکف استعمال کرتا تھا، میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہوا، جو بہت مرعوب نظر آتا تھا، آپ ہیں بابو گوپی ناتھ، بڑے خانہ خراب لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبئے تشریف لائے ہیں ساتھ کشمیر کی ایک کبوتری ہے، بابو گوپی ناتھ مسکرایا۔

عبد الرحیم سینڈو نے تعارف کو ناکافی سمجھ کر کہا کہ نمبر ون بے وقوف ہو سکتا ہے تو وہ آپ ہیں، لوگ ان کے مسکا لگا کر روپیہ بٹورتے ہیں، میں صرف باتیں کر کے ان سے ہر روز پولسن بٹر کے دو پیکٹ وصول کرتا ہوں، بس منٹو صاحب، یہ سمجھ لیجیے کہ بڑے انٹی فلو جیسٹس قسم کے آدمی ہیں، آپ آج شام کو انکے فلیٹ پر ضرور تشریف لائیے۔

بابو گوپی ناتھ خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا چونک کر کہا ہاں ہاں ضرور تشریف لائیے منٹو صاحب، پھر سینڈو سے پوچھا کیوں سینڈو کیا آپ کچھ اس کا شغل کرتے ہیں۔ تو عبدالرحیم نے زور سے قہقہہ لگایا، اجی ہر قسم کا شغل کرتے ہیں، تو منٹو صاحب آج شام کو ضرور آئیے گا، میں نے بھی پینی شروع کر دی ہے، اس لئے کہ مفت ملتی ہے۔

سینڈو نے مجھے فلیٹ کا پتہ لکھ کر دیا، جہاں میں حسب وعدہ شام کو چھ کے قریب پہنچ گیا، تین کمرے کا صاف ستھرا فلیٹ تھا، جس میں بالکل نیا فرنیچر سجا ہوا تھا، سینڈو اور بابو گوپی ناتھ کے علاوہ بیٹھنے والے کمرے میں دو مرد اور عورتیں موجود تھیں، جن سے سینڈو نے مجھے متعارف کرایا۔

ایک تھا غفار سائیں، تہمد پوش، پنجاب کا ٹھیٹ سائیں، گلے میں موٹے موٹے دانوں کی مالا، سینڈو نے اس کے بارے میں کہا کہ، آپ بابو گوپی ناتھ کے لیگل ایڈوائزر ہیں، میرا مطلب سمجھ جائیے آپ، ہر آدمی جس کی ناک بہتی ہو جس کے منہ سے لعاب نکلتا ہو، پنجاب میں خدا کو پہنچا ہوا درویش بن جاتا ہے، یہ بھی بس پہنچے ہوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں، لاہور سے بابو گوپی ناتھ کے ساتھ آئے ہیں، کیونکہ انہیں وہاں کوئی اور وقوف ملنے کی امید نہیں تھی، یہاں آپ بابو گوپی ناتھ سے کریون اے کے سگریٹ اور سکاچ وسکی کے پیگ پی کر دعا کرتے رہتے ہیں،کہ انجام نیک ہو۔

دوسرے مرد کا نام تھا غلام علی، لمبا تڑنگا جوان،کسرتی بدن،منہ پر چیچک کے داغ، اس کے متعلق سینڈو نے کہا یہ میرا شاگرد ہے، اپنے استاد کے نقش قدم پر چل رہا ہے، لاہور کی ایک نامی طوائف کی کنواری بیٹی اس پر عاشق ہو گئی، بڑی کنٹی وٹیاں ملائی گئیں اس کو پھانسنے کیلئے مگر اس نے کہا، ڈو اور ڈائی، میں لنگوٹ کا پکا رہوں گا، ایک تکئیے میں بات چیت پیٹے ہوئے بابو گوپی ناتھ سے ملاقات ہو گئی، بس اس دن سے ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے،ہر روز کریون اے کا ڈبہ اور کھانا پینا مقرر ہے۔

گول چہرے والی ایک سرخ و سفید عورت تھی، کمرے میں داخل ہوتے ہی میں سمجھ گیا تھا،کہ یہ وہی کشمیری کبوتری ہے، جس کے متعلق سینڈو نے دفتر میں ذکر کیا تھا، بہت صاف ستھری عورت تھی، بال چھوٹے تھے،ایسا لگتا تھا کٹے ہوئے ہیں،مگر ایسا نہیں تھا، آنکھیں شفاف اور چمکیلی تھیں، چہرے کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بے حد الہڑ اور نا تجربہ کار ہے، سینڈو نے اس سے تعارف کراتے ہوئے کہا زینت بیگم بابو گوپی ناتھ پیار سے زینو کہتے ہیں، ایک بڑی خرانٹ نائکہ کشمیر سے یہ سیب توڑ کر لاہور لے آئی بابو گوپی ناتھ کو اپنی سی آئی ڈی سے پتہ چلا کہ اور ایک رات لے اڑے، مقدمے بازی ہوئی تقریباً دو مہینے تک پولیس عیش کرتی رہی، آخر بابو گوپی ناتھ نے مقدمہ جیت لیا اور اسے یہاں لے آئے۔۔۔۔۔دھڑن تختہ۔

اب گہرے سانولے رنگ کی عورت باقی رہ گئی تھی جو خاموش بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی، آنکھیں سرخ تھیں جن سے کافی بے حیائی مترشح تھی، بابو گوپی ناتھ نے اس کی طرف اشارہ کیا، اس کے متعلق بھی کچھ ہو جائے۔

سینڈو نے اس عورت کی ران پر ہاتھ دے مارا اور کہا جناب یہ ہے، ٹین پٹونی فل فل فونی، مسز عبد الرحیم سینڈو عرف سردار بیگم۔۔۔۔۔آپ بھی لاہور کی پیداوار ہیں، سن چھتیس میں مجھ سے عشق ہوا تھا، دو برسوں ہی میں میرا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا، میں لاہور چھوڑ کر بھاگا، بابو گوپی ناتھ نے اسے یہاں بلوا لیا ہے، تاکہ میرا دل لگا رہے، اس کو بھی ایک ڈبہ کریون اے کا راشن ملتا ہے، ہر روز شام کو ڈھائی روپے کا مورفیا کا انجکشن لیتی ہے، رنگ کالا ہے، مگر ویسے بڑی ٹیٹ فور ٹیٹ قسم کی عورت ہے۔

سردار نے ایک ادا سے صرف اتنا کہا، بکواس نہ کر، اس ادا میں پیشہ ور عورت کی بناوٹ تھی۔

سب سے متعارف کرانے کے بعد سینڈو نے حسب عادت میری تعریف کے پل باندھنے شروع کر دئیے، میں نے کہا چھوڑو یار، آؤ کچھ باتیں کریں۔

سینڈو چلایا بوائے وسکی اینڈ سوڈا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابو گوپی ناتھ لگاؤ ایک سبزے کو۔ نوٹ سینڈو کے حوالے کر دیا، سینڈو نوٹ لے کر اس کی طرف غور سے دیکھا اور کھڑا کھڑا کر کہا اور گوڈ۔۔۔او میرے رب العالمین۔۔۔۔وہ دن کب آئے گا جب میں بھئ لب لگا کر یوں نوٹ نکالا کروں گا۔۔۔۔جاؤ بھی غلام علی وہ دو بوتلیں جانی وا کر سٹل گوتنگ سٹرانگ کی لئے آؤ۔ بوتلیں آئیں تو سب نے پینا شروع کیں، یہ شغل دو تین گھنٹے تک جاری رہا، اس دوران میں سے زیادہ باتیں حسب معمول عبدالرحیم نے کیں، پہلا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کر کے وہ چلایا، دھڑن تختہ منٹو صاحب وسکی ہو تو ایسی حلق سے اتر کر پیٹ میں انقلاب زندہ باد لکھتی چلی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابو گوپی ناتھ جیو۔

بابو گوپی ناتھ بے چارہ خاموش رہا، کبھی کبھی البتہ وہ سینڈو کی ہاں ملا دیتا تھا، میں نے سوچا اس شخص کی اپنی کوئی رائے نہیں ہے، دوسرا جو کہے مان لیتا ہے، ضعیف الاعتقادی کا ثبوت غفار سائیں جسے وہ بقول سینڈو اپنا لیگل ایڈوائزر بنا کر لایا تھا، سینڈو کا اس سے دراصل یہ مطلب تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس سے عقیدت تھی، یوں بھی مجھے دوران گفتگو میں معلوم ہوا کہ لاہور میں اس کا اکثر وقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں گزرتا تھا، یہ چیزیں میں خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ کھویا کھویا سا تھا، جیسے وہ کچھ سوچ رہا ہے، میں نے چنانچہ اس سے ایک بار کہا بابو گوپی ناتھ کیا سوچ رہے ہو آپ۔

وہ چونک پڑا۔جی میں۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں، یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور زینت کی طرف ایک عاشقانہ نگاہ ڈالی، ان حسینوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔اور ہمیں کیا سوچ ہو گی۔

سینڈو نہ کہا بڑے خانہ خراب ہیں یہ منٹو صاحب، بڑے خانہ خراب ہیں۔۔۔۔۔۔۔لاہور کی کوئی طوائف نہیں جس کے ساتھ بابو گوپی ناتھ کی کنٹی نیو ٹی نہ رہ چکی ہو، بابو گوپی ناتھ نے یہ سن کر بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا اب کمرے میں وہ دم ہے نہیں منٹو صاحب۔

اس کے بعد واہیات گفتگو شروع ہوئی، لاہور کی طوائفوں کے سب گھرانے گنے گئے، کون ڈیرہ دار تھی؟ کون نئی تھی، کون کس کی نوچی تھی؟ نتھنی اتارنے کا گوپی ناتھ جی نے کیا دیا تھا، وغیرہ وغیرہ، یہ گفتگو سردار،سینڈو، غفار سائیں اور غلام علی کے درمیان ہوتی رہی، ٹھیٹ لاہور کے کوٹھوں کی زبان میں، مطلب تو میں سمجھتا رہا بعض اصطلاحیں سمجھ میں نہ آئے۔

زینت بالکل خاموش بیٹھی رہی، کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اسے اس گفتگو سے کوئی دلچسپی کے سگریٹ بھی پیتی تھی، تو معلوم ہوتا تھا، اس تمباکو اور اس کے دھوئیں سے کوئی رغبت نہیں لیکن لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ اسی نے پی، بابو گوپی ناتھ سے اسے محبت تھی، اس کا پتہ مجھے کسی بات سے پتہ نہ چلا، اتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اسکا کافی خیال تھا، کیونکہ زینت کی آسائش کیلئے ہر سامان مہیا تھا، لیکن ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچاؤ تھا، میرا مطلب ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے کچھ ہٹے سے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔

آٹھ بجے کے قریب سردار، ڈاکٹر مجید کے ہاں چلی گئ کیونکہ اسے مورفیا کا انجکشن لینا تھا، غفار سائیں تین پیگ پینے کے بعد اپنی تسبیح اٹھا کر قالین پر سوگیا، غلام علی کو ہوٹل سے کھانا لینے کیلئے بھیج دیا گیا تھا، سینڈو نے اپنی دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لئے بند کی تو بابو گوپی ناتھ نے جو اب نشے میں تھا، زینت کی طرف وہ ہی عاشقانہ نگاہ ڈالی اور کہا، منٹو صاحب میری زینت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔

میں نے سوچا کیو کہوں، زینت کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی، میں نے اسے ہی کہہ دیا، بڑا نیک خیال ہے۔

بابو گوپی ناتھ خوش ہو گیا، منٹو صاحب ہے بھی بڑی نیک لوگ، خدا کی قسم نہ زیور کا شوق ہے نہ کسی چیز کا، میں نے کئی بار کہا، جان من مکان بنوا دوں؟ جواب کیا دیا، معلوم ہے آپ کو۔۔۔۔۔۔؟ کیا کروں گی مکان لے کر، میرا کون ہے۔۔۔۔۔۔منٹو صاحب موٹر کتنے میں آ جائے گی۔ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔

بابو گوپی ناتھ نے تعجب سے کہا کیا بات کرتے ہو منٹو صاحب۔۔۔۔۔۔۔آپ کو اور کاروں کی قیمت معلوم نہ ہو، کل چلئیے گا میرے ساتھ، زینو کیلئے ایک موٹر لیں گے، میں نے اب دیکھا ہے کہ بمبئے میں موٹر ہونی چاہئیے۔

زینت کا چہرہ رد عمل سے خالی تھا۔

بابو گوپی ناتھ کا نشہ تھوڑی دیر کے بعد بہت تیز ہو گیا، ہمہ تن جذبات ہو کر اس نے مجھ سے کہا، منٹو صاحب آپ بڑے لائق آدمی ہیں، میں تو بالکل گدھا ہوں، لیکن آپ مجھے بتائیے، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں، کل باتوں باتوں میں سینڈو نے آپ کا ذکر کیا، میں نے اسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اس سے کہا مجھے لے چل منٹو صاحب کے پاس، مجھ سے کوئی گستاخی ہو تو معاف کر دیجئے گا۔۔۔۔۔بہت گناہ گار آدمی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ وسکی منگواؤں کیا آپ کے لئے اور۔

میں نے کہا نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔بہت پی چکے ہیں۔

وہ اور زیادہ جذباتی ہو گیا، اور پیجئیے منٹو صاحب یہ کہہ کر جیب سے سوسو کے نوٹوں کا پلندہ نکالا اور ایک نوٹ جدا کرنے لگا لیکن میں نے سب نوٹ اس کے ہاتھ سے لئے اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دئیے، سو روپے کا ایک نوٹ آپ نے غلام علی کو دیا اس کا کیا ہوا؟

مجھے دراصل کچھ ہمدردی سی ہو گئی تھی،بابو گوپی ناتھ سے، کتنے آدمی اس غریب کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے،میرا خیال تھا بابو گوپی ناتھ بالکل گدھا ہے، لیکن وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور مسکرا کر کہنے لگا، منٹو صاحب اس نوٹ میں سے جو کچھ باقی بچا ہے وھ یا تو غلام علی کی جیب سے گر پڑے یا۔۔۔۔

بابو گوپی ناتھ نے پورا جملہ بھی ادا نہیں کیا تھا کہ غلام علی نے کمرے میں داخل ہو کر بڑے دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ کسی حرامزادے نے اس کی جیب میں سے ساری روپے نکال لئیے، بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا، پھر سو روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکالا اور غلام علی کو دے کر کہا جلدی کھانا۔۔۔۔لے آؤ۔

انچ چھ ملاقاتوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ پوری طرح خیر انسان کسی کو بھی نہیں جان سکتا، لیکن مجھے اس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔

پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ خیال کہ وہ پرلے درجے کا چغد ہے غلط ثابت ہوا، اس کو اس کا پوا حساس تھا کہ سینڈو، غلام علی اور سردار وغیرہ جو اس کے مصاحب بنے ہوئے تھے مطلبی انسان ہیں، وہ ان جھڑکیاں گالیاں سب سنتا تھا لیکن غصے کا اظہار نہیں کیا،اس نے مجھ سے کہا، منٹو صاحب میں نے آج تک کسی کا مشورہ رد نہیں کیا، جب بھی مجھے کوئی رائے دیتا ہے، میں کہتا ہوں، سبحان اللہ وہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں لیکن میں انہیں عقلمند سمجھتا ہوں، اس لئے کہ ان میں کم از کم اتنی عقل تو تھی کہ جو مجھ سے ایسی بے وقوفی کو شناخت کر لیا، جن سے ان کا الو سیدھا ہو سکتا ہے بات دراصل یہ ہے کہ میں شروع سے فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں، مجھے ان سے کچھ محبت سی ہو گئی ہے، میں ان کے بغیر نہیں رہا سکتا، میں نے سوچ رکھا ہے جب میری دولت بالکل ختم ہو جائے گی، تو کسی تکئیے میں جا بیٹھوں گا، رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار، بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کوسکون ملتا ہے، رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا، اس لئے جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں، کسی ایک کے مزار پر چلا جاؤں گا۔

میں نے اس سے پوچھا، رنڈی کے کوٹھے اور تکئے آپ کو کیوں پسند ہیں، کچھ دیر بعد سوچ کر اس نے جواب دیا اس لئے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے جو آدمی خود کو دھوکہ دینے چاہے، اس کے لئے ان سے اچھا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔

میں نے ایک اور سوال کیا آپ کو طوائفوں کا گانا سننے کا شوق ہے کیا آپ موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں۔

اس نے جواب دیا بالکل نہیں اور یہ اچھا ہے کیونکہ میں کن سری سے کن سری طوائف کے ہاں جا کر بھی اپنا سر ہلا سکتا ہوں۔۔۔۔۔منٹو صاحب مجھے گانے سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن جیب میں سے دس یا سو کا نوٹ نکال کر گانے والی کو دکھانے میں بہت مزا آتا ہے، نوٹ نکالا اور اس کو دکھایا، وہ اسے لینے کیلئے ایک ادا سے اٹھی، پاس آئی تو نوٹ جراب میں اڑس لیا، اس نے جھک کر اسے باہر نکالا تو ہم خوش ہو گئے، ایسی بہت فضول فضول سی باتیں ہیں جو ہم ایسے تماش بینوں کو پسند ہیں ورنہ کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کرواتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔

بابو گوپی ناتھ کا شجرہ نسب تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا معلوم ہوا کہ کہ وہ ایک بہت بڑے کنجوس بنیے کا بیٹا ہے باپ کے مرنے کے بعد اسے دس لاکھ کی جائداد ملی جو اس نے اپنی خواہش کے مطابق اڑانا شروع کر دی، بمبئے آتے وقت وہ اپنے ساتھ پچاس ہزار ساتھ لایا تھا، اس زمانے میں سب چیزیں سستی تھیں، لیکن پھر بھی ہر روز تقریباً سو سوا سو روپے خرچ ہو جاتے تھے۔

زینوں کیلئے اس نے فیسٹ موٹر خریدی، یاد نہیں رہا، لیکن شاید تین ہزار روپے میں آئی تھی،ایک ڈرائیور رکھا لیکن وہ بھی لفنگے ٹائپ کا، بابو گوپی ناتھ کو کچھ ایسے ہی آدمی پسند تھے۔

ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا، بابو گوپی ناتھ سے مجھے صرف دلچسپی تھی لیکن اسے مجھ سے کچھ یوں عقیدت ہو گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کی بہ نسبت میرا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔

ایک روز شام کے قریب جب میں فلیٹ پر گیا تو مجھے وہاں شفیق کو دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی، محمد شفیق طوسی کہوں تو شاید آپ سمجھ لیں کہ میری مراد کس آدمی سے ہے، یوں تو شفیق کافی مشہور آدمی تھے، کچھ اپنی جدت طراز گائیکی کے باعث اور کچھ اپنی بذلہ سنج طبعیت کی بدولت، لیکن اس کی زندگی کا ایک حصہ اکثریت سے پوشیدہ ہے، بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ تین سگی بہنوں کو یکے بعد دیگرے تین تین چار چار سال کے وقفے کے بعد داشتہ بنانے سے پہلے اسکا تعلق ان کی ماں سے بھی تھا، یہ بھی تھا، یہ بھی بہت کم مشہور ہے کہ اس کو اپنی پہلی بیوی اس لئے پسند نہ تھی کہ اس میں طوائفوں والے غمزے اور عشوے نہیں تھے،لیکن یہ تو خیر ہر آدمی جو شفیق طوسی سے تھوڑی بہت واقفیت بھی رکھتا ہے جانتا ہے کہ چالیس برس یہ اس زمانے کی عمر ہے کی عمر میں سیکنٹروں طوائفوں نے اسے رکھا، اچھے سے اچھا کپڑا پہنا، عمدہ سے عمدہ کھانا کھایا۔

نفیس سے نفیس موٹر رکھی مگر اس نے اپنی گرہ سے کسی طوائف پر ایک دمڑی بھی خرچ نہ کی۔

عورتوں کیلئے خاص طور پر جو کہ پیشہ ور ہوں، اس کے بذلہ سبخ طبعیت میں جس میں میراثنوں کے مزاج کی جھلک تھی، بہت جاذب نظر تھی، وہ کوشش کئے بغیر ان کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔

میں نے جب اسے ہنس ہنس کر زینت سے باتیں کرتے دیکھا تو مجھے اس لئے حیرت نہ ہوئی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے، میں نے صرف اتنا سوچا کہ وہ دفعتہً یہاں پہنچا کیسے، سینڈو اسے جانتا تھا، مگر ان کی بول چال تو ایک عرصے سے بند تھی لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سینڈو ہی اسے ساتھ لایا تھا، ان دونوں میں صلح صفائی ہو گئی تھی۔

بابو گوپی ناتھ ایک طرف بیٹھا حقہ پی رہا تھا، میں نے شاید اس سے پہلے ذکر نہیں کیا، وہ سگریٹ بالکل نہیں پیتا تھا، محمد شفیق طوسی میراثنوں کے لطیفے سنا رہا تھا، جس میں زینت کسی قدر کم اور سردار بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھی، شفیق نے مجھے دیکھا اور کہا بسم اللہ بسم اللہ کیا آپ کا گزر بھی اس وادی میں ہوتا ہے۔

سینڈو نے کہا تشریف لے آئیے عزرائیل صاحب یہاں دھڑن تختہ۔ میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔

تھوڑی دیر گپ بازی ہوتی رہی، میں نے نوٹ کیا کہ زینت اور محمد شفیق طوسی کی نگاہیں آپس میں ٹکرا کر کچھ اور بھی کہہ رہی ہیں زینت اس فن میں بالکل کوری تھی، لیکن شفیق کی مہارت زینت کی خامیوں کو چھپاتی رہی، سردار دونوں کی ناگاہ بازی کو کچھ اس انداز سے دیکھ رہی تھی جسیے خلیفے اکھاڑے کے باہر بیٹھ کر اپنے پھٹوں کے داؤں پیچ کو دیکھتے ہیں۔

اس دوران میں میں بھی زینت سے کافی بے حد تکلف ہو گیا تھا، وہ مجھے بھائی کہتے تھی، جس پر مجھے اعتراض نہیں تھا، اچھی ملنسار طبعیت کی عورت تھی، کم گو، سادھ لوح، صاف ستھری۔ شفیق سے مجھے اس کی ناگاہ بازی پسند نہیں آئی تھی، اول تو اس میں بھونڈا پن تھا اس کے علاوہ۔۔۔۔کچھ یوں کہئیے کہ اس بات کا بھی اس میں دخل تھا کہ وہ میرے بھائی کہتی تھی، شفیق اور سینڈو اٹھ کر باہر چلے گئے تو میں نے شاید بڑی بے رحمی کے ساتھ اس سے نگاہ بازی کے متعلق استفار کیا کیونکہ فورا اس کی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو آ گئے اور روتی روتی دوسرے کمرے میں چلی گئی، بابو گوپی ناتھ جو ایک کونے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا، اٹھ کر تیزی سے اسکے پیچھے چلا گیا سردار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے کہا لیکن مطلب نہ سمجھا، تھوڑی دیر کے بعد بابو گوپی ناتھ کمرے سے باہر نکلا اور آئیے منٹو صاحب کہہ کر مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔

زینت پلنگ پر بیٹھی تھی، میں اندر داخل ہوا تو دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی، میں اور بابو گوپی ناتھ دونوں پلنگ کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے، بابو گوپی ناتھ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا شروع کیا منٹو صاحب مجھے اس عورت سے بہت محبت ہے، دو برس سے یہ میرے ساتھ ہے میں حضرت غوث اعظم جیلانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا، اس کی دوسری بہنیں، میرا مطلب ہے اس پیشے کی دوسری عورتیں دونوں ہاتھوں سے مجھے لوٹ کھاتی رہی مگر اس نے کبھی ایک زائد پیسہ مجھ سے نہیں لیا میں اگر کسی دوسری عورت کے پاس ہفتوں پڑا رہا تو اس غریب نے اپنا کوئی زیور گروی رکھ کر گزارہ کیا، میں جیسا کہ آپ سے ایک دفعہ کہہ چکا ہوں بہت جلد اس دنیا سے کنارہ کش ہونے والا ہوں، میری دولت اب کچھ دن کی مہمان ہے، میں نہیں چاہتا اس کی زندگی خراب ہو میں نے لاہور میں اس کو بہت سمجھایا کہ تم دوسری طوائفوں کی طرف دیکھوں جو کچھ وہ کرتی ہیں سیکھو، میں آج دولت مند ہوں کل مجھے بھکاری ہونا ہے، تم لوگوں کی زندگی میں صرف ایک امیر کافی نہیں ہے، میرے بعد تم کسی اور کو نہیں پھانسو گی تو کام نہیں چلے گا، لیکن منٹو صاحب اس نے میری ایک نہ سنی، سارادن شریف زادیوں کی طرح گھر میں بیٹھی رہتی ہے، میں نے غفار سائیں سے مشورہ کیا، اس نے کہا بمبئی لے جاؤ اسے معلوم تھا اس نے ایسا کیوں کہا بمبئی میں اس کی دو جاننے والی طوائفیں ایکڑیس بنی ہوئی ہیں لیکن میں نے سوچا بمبئی ٹھیک ہے دو پمینے ہو گئے ہیں اسے یہاں لائے ہوئے، سردار کو لاہور سے بلایا ہے کہ اس کو سب گر سکھائے، غفار سائیں سے بھی یہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہے یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا، اس کو یہ خیال تھا کہ بابو گوپی ناتھ کی بے عزتی ہو گی، میں نے کہا تم چھوڑ اس کو بمبئی بہت بڑا شہر ہے لاکھوں رئیس ہیں۔

میں نے تمہیں موٹر لے دی ہے کوئی اچھا آدمی تلاش کر اور۔۔۔۔۔۔۔منٹو صاحب میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہو میری دلی خواہش ہے کہ یہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے، اچھی طرح ہوشیار ہو جائے، میں اس کے نام آج ہی بنک میں دس ہزار روپے جمع کرانے کو تیار ہو، مگر مجھے معلوم ہے دس دن کے اندر اندر یہ باہر بیٹھی ہوئی سردار اس کی ایک ایک پائی اپنی جیب میں ڈال لے گی۔۔۔۔۔آپ بھی اسے سمجھائیے کہ چالاک بننے کی کوشش کرے جب سے موٹر خریدی ہے، سردار اسے ہر روز شام کو اپو لو بندر لے جاتے ہیں ابھی بھی کامیابی نہیں ہوئی ہے، سینڈو آج بڑی مشکل سے محد شفیق کو یہاں لایا ہے، آپ کا کیا خیال ہے اس کے متعلق۔

میں نے اپنا خیال ظاہر نہیں کیا،لیکن بابو گوپی ناتھ نے خود ہی کہا اچھا کھاتا پیتا آدمی معلوم ہوتا ہے اور خوبصورت بھی ہے۔۔۔۔۔کیوں زینو جانی۔۔۔۔۔پسند ہے تمہیں؟

زینو خاموش رہی۔

بابو گوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو میرا دماغ چکرا گیا، مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دور کر دی، بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھے مالدار آدمی کی داشتہ بن جائے یا ایسے طریقے سیکھ لے، جس سے وہ مختلف آدمیوں سے روپیہ وصول کر تے رہنے میں کامیاب ہو سکے۔

زینت سے صرف چھٹکارا ہی حاصل کرنا ہو تو یہ کوئی اتنی مشکل چیز نہیں تھی، بابو گوپی ناتھ ایک ہی دن میں یہ کام کر سکتا تھا چونکہ اس کی نیت صاف تھی اس لئے اس نے زینت کے مستقبل کیلئے ہر ممکن کوشش کی، اس کو ایکٹریس بنانے کیلئے اس نے کئی جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں کیں، گھر میں ٹیلیفون لگوا دیا اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔

محمد شفیق طوسی تقریباً ڈیڑھ ماہ آتا رہا کئی راتیں بھی اس نے زینت کے ساتھ بستر کیں لیکن وہ ایسا آدمی نہ تھا جو کسی عورت کا سہارا بن سکے، بابو گوپی ناتھ نے ایک روز افسوس اور رنج کے ساتھ کہا شفیق صاحب تو خالی خولی جنٹل مین ہی نکلے۔

ھسہ دیکھئیے،لیکن بے چاری زینت سے چار چادریں چھ تکئیے کے غلاف اور دو سو روپے نقد ہتیا کر لے گئے، سنا ہے آج کل ایک لڑکی الماس سے عشق لڑا رہے ہیں۔

یہ درست ہے الماس نذیر جان پٹیالے والی کی سب سے چھوٹی اور آخری لڑکی تھی، اس سے پہلے تین بہنیں شفیق کی داشتہ رہ چکی ہیں، دو سو روپے جو اس نے زینت سے لئے تھے مجھے معلوم ہے الماس پر خرچ ہوئے تھے، بہنوں کے ساتھ لڑ جھگڑ کر الماس نے زہر کھا لیا تھا۔

محمد شفیق نے جب آنا جانا بند کر دیا تو زینت نے مجھے کئی ٹیلی فون کئیے اور کہا اسے ڈھونڈ کر میرے پاس لائیے، میں نے اسے تلاش کیا لیکن کسی کو اس کا پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے، ایک روز اتفاقیہ ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی، میں نے اس سے کہا کہ تمہیں زینت بلاتی ہے تو اس نے جواب دیا، مجھے یہ پیغام اور ذریعوں سے بھی مل چکا ہے افسوس ہے آج کل مجھے بالکل فرصت نہیں ہے، زینت بہت اچھی عورت ہے لیکن افسوس ہے کہ بے حد شریف ہے۔۔۔۔۔ایسی عورتوں سے جو بیویوں جسی لگیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔

شفیق سے جب مایوسی ہوئی تو زینت نے سردار کے ساتھ پھر اپولو بندر جانا شروع کیا، پندرہ دنوں میں بڑی مشکلوں سے کئی گیلن پیٹرول پھونکنے کے بعد سردار نے دو آدمی پھانسے، ان سے زینت کو چار سو روپے ملے، بابو گوپی ناتھ نے سمجھا کہ حالات امید افزا ہیں، کیونکہ ان میں سے ایک نے جو ریشمی کپڑوں کی مل کا مالک تھا زینت سے کہا تھا میں تم سے شادی کروں گا، ایک مہینہ گزر گیا لیکن یہ آدمی پھر زینت کے پاس نہ آیا۔

ایک روز میں جانے کس کام سے ہار بنی روڈ پر جا رہا تھا کہ مجھے فٹ پاتھ کے پاس زینت کی موٹر نظر آئی پچھلی نشست پر یاسین بیٹھا تھا، نگینہ ہوٹل کا مالک، میں نے اس سے پوچھا، یہ موٹر تم نے کہاں سے لی؟

یاسین مسکرایا تم جانتے ہو موٹر والی کو۔

میں نے کہا جانتا ہوں۔

تو بس سمجھ لو میری پاس کیسے آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھی لڑکی ہے یار۔ یاسین نے مجھے آنکھ ماری۔ میں مسکرایا۔

اس کے عین چوتھے روز بابو گوپی ناتھ ٹیکسی پر میرے دفتر میں آیا اس سے مجھے معلوم ہوا کہ زینت سے یاسین کی ملاقات کیسے ہوئی، ایک شام اپولو بندر سے ایک آدمی لے کر سردار اور زینت نگینہ ہوٹل میں گئیں، وہ آدمی کسی بات پر جھگڑا کر کے چلا گیا، لیکن ہوٹل کے مالک سے زینت کی دوستی ہو گی۔

بابو گوپی ناتھ مطمئن تھا کیونکہ دس پندرہ روز کی دوستی کے دوران میں یاسین نے زینت کو چھ بہت ہی عمدہ اور قیمتی ساڑیاں لے دی تھیں، بابو گوپی ناتھ اب یہ سوچ رہا تھا کہ کچھ دن اور گزر جائیں زینت اور یاسین کی دوستی اور مضبوط ہو جائے تو لاہور واپس چلا جائے۔۔۔۔۔مگر ایسا نہ ہوا۔

نگینہ ہوٹل میں ایک کرسچن عورت نے کمرہ کرائے پر لیا، اس کی جوان لڑکی میوریل سے یاسین کی آنکھ لڑ گئی، چنانچہ زینت بے چاری ہوٹل میں بیٹھی رہتی اور یاسین اس کی موٹر میں صبح شام اس لڑکی کو گھماتا رہتا، بابو گوپی ناتھ کو اس کا علم ہونے پر بہت دکھ ہوا،اس نے مجھ سے کہا منٹو صاحب یہ کیسے لوگ ہیں، بھئی دل اچاٹ ہو گیا ہے تو صاف کہہ دو، لیکن زینت بھی عجیب ہے، اچھی طرح معلوم ہے کیا ہو رہا ہے، مگر منہ سے اتنا بھی نہیں کہتی میاں اگر تم اس کرسٹان چھوکری سے عشق لڑانا ہے تو اپنی موٹر کا بندوبست کرو، میری موٹر کیوں استعمال کرتے ہو۔۔۔۔میں کیا کروں منٹو صاحب شریف اور نیک بخت عورت ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے، تھوڑی سی چالاک تو بننا چاہئیے۔

یاسین سے تعلق قطع ہونے پر زینت نے کوئی صدمہ محسوس نہ کیا۔

بہت دنوں تک کوئی نئی بات وقوع پذیر نہ ہوئی، ایک دن ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا بابو گوپی ناتھ غلام علی اور سائیں غفار کے ساتھ لاہور چلا گیا ہے، روپے کا بندوبست کرنے کیونکہ پچاس ہزار ختم ہو چکے ہیں، جاتے وقت وہ زینت سے کہہ گیا تھا کہ اگر لاہور میں زیادہ دن لگیں گے کیونکہ اسے چند مکان فروخت کرنے پڑیں گے۔

سردار کو موفیا کے ٹیکو کی ضرورت تھی، سینڈو کو پولس مکھن کی، چنانچہ دونوں نے متحدہ کوشش کی اور روز دو تین آدمی پھانس کر لے آتے، زینت سے کہا گیا، کہ بابو گوپی ناتھ واپس نہیں آتے اس لئے اپنی فکر کرنی چاہئیے، سو سوا سو روپے روز کے ہو جاتے ہیں جس میں سے آدھے زینت کو ملتے ہیں باقی سینڈو اور سردار دبا لیتے ہیں۔ میں نے ایک دن زینت سے کہا یہ تم کیا کر رہی ہو۔

اس نے بڑے الہڑ پن سے کہا مجھے معلوم نہیں بھائی جان، یہ لوگ جو کچھ کرنے کیلئے کہتے ہیں مان لیتی ہوں۔

جی چاہتا تھا کہ دیر تک پاس بیٹھ کر سمجھاؤں کہ جو کچھ تم کر رہی ہو ٹھیک نہیں ہے۔

سینڈو اور سردار پنا الو سیدھا کرنے کیلئے تمہیں بیچ بھی ڈال لیں گے، مگر میں نے کچھ نہ کہا، زینت اکتا دینے والی حد تک بے سمجھ، بے امنگ اور جان عورت تھی، اس کم بخت کو اپنی زندگی کی کچھ قدر و قیمت معلوم نہیں تھی، جسم بیچتی مگر اس میں بیچنے والوں کا کوئی انداز تو ہوتا، واللہ مجھے بہت کوفت ہوئی اسے دیکھ کر، سگریٹ سے، شراب سے کھانے سے، گھر میں ٹیلیفون سے، حتی کہ اس صوفے سے بھی جس پر وہ اکثر لیٹی رہتی تھی، اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

بابو گوپی ناتھ پورے ایک مہینے بعد لوٹا، تاہم گیا تو وہاں فلیٹ میں کوئی اور ہی تھا، سینڈو اور سردار کے مشورے سے زینت نے باندرہ میں ایک بنگلے کا بالائی حصہ کرائے پر لے لیا تھا، بابو گوپی ناتھ میرے پاس آئے تو میں نے پورا پتہ بتا دیا، اس نے مجھ سے زینت کے متعلق پوچھا، جو کچھ مجھے معلوم تھا میں نے کہہ دیا لیکن یہ نہ کہا کہ سینڈو اور سردار اس سے پیشہ کرا رہے ہیں۔

بابو گوپی ناتھ اب کی دس ہزار اپنے ساتھ لایا تھا،جو اس نے بڑی مشکلوں سے حاصل کیا تھا، غلام علی اور غفار سائیں کو وہ لاہور میں چھوڑ آیا تھا، ٹیکسی نیچے کھڑی ہے بابو گوپی ناتھ نے اصرار کیا کہ میں ابھی اس کے ساتھ چلو۔

قریباً ایک گھنٹے میں ہم باندرہ پہنچ گئے، پالی ہل پر ٹیکسی چڑھ رہی تھی کہ سامنے تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا، بابو گوپی ناتھ نے زور سے پکارا سینڈو۔

سینڈو نے جب بابو گوپی ناتھ کو دیکھا تو اس کے منہ سے صرف اس قدر نکلا دھڑن تختہ۔

بابو گوپی ناتھ نے اس سے کہا آؤ ٹیکسی میں بیٹھ جاؤ اور ساتھ چلو لیکن سینڈو نے کہا ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجئیے، مجھے آپ سے کچھ پرائیوٹ باتیں کرنی ہیں۔

ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی، بابو گوپی ناتھ باہر نکلا تو سینڈو اسے کچھ دور لے گیا، دیر تک ان میں باتیں ہوتی رہیں، جب ختم ہوئیں تو بابو گوپی ناتھ اکیلا ٹیکسی کی طرف آیا، ڈرائیور سے اس نے کہا واپس چلو، بابو گوپی ناتھ خوش تھا، ہم داور کے پاس پہنچے تو اس نے کہا منٹو صاحب زینو کی شادی ہونے والی ہے، میں نے حیرت سے کہا کس سے؟

بابو گوپی ناتھ نے جواب دیا حیدرآباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ہے، خدا کرے دونوں خوش رہیں، یہ بھی اچھا ہے جو میں عین وقت پر آ ن پہنچا، جو روپے میرے پاس ہیں ان سے زینو کا جہز بن جائے گا۔۔۔۔۔۔کیوں کیا خیال ہے آپ کا۔

میرے دماغ میں اس وقت کوئی خیال نہیں تھا، میں سوچ رہا تھا، کہ یہ حیدرآباد سندھ کا دولت مند زمیندار کون ہے؟ ہے سینڈو اور سردار کی کوئی جعل سازی تو نہیں لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہو گئی کہ وہ حقیقتاً حیدرآباد کا متمول زمیندار تھا، جو حیدر آباد سندھی ہی کے ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت سے متعارف ہوا، یہ میوزک ٹیچر زینت کا گانا سکھانے کی بے سود کوشش کیا کرتا تھا، ایک روز یہ اپنے مربی غلام حسین یہ حیدر آباد سندھ کے رئیس کا نام تھا، کو ساتھ لے کر آیا، زینت نے خوب خاطرمدارات کی غلام حسین کی پر زور فرمائش پر اس نے غالب کی غزل

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بننے

گا کر سنائی، غلام حسین سو جان سے اس پر فریفتہ ہو گیا، اس کو ذکر میوزک ٹیچر نے زینت سے کیا، سردار اور سینڈو نے مل کر معاملہ پکا کر دیا اور شادی طے ہو گئی۔

بابو گوپی ناتھ خوش تھا ایک دفعہ سینڈو کے دوست کی حیثیت سے وہ زینت کے ہاں گیا، غلام حسین سے اس کی ملاقات ہوئی اس سے مل کر بابو گوپی ناتھ کی خوشی دوگنی ہو گئی، مجھ اس نے مجھ سے کہا منٹو صاحب خوبصورت جوان اور بڑا لائق آدمی ہے۔۔۔۔میں نے یہاں آتے ہی۔۔۔۔۔۔۔داتا گنج بخش کے حضور جا کر دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔۔۔۔۔۔بھگوان کرے دنوں خوش رہیں۔

بابو گوپی ناتھ نے بڑے خلوص اور بڑی توجہ سے زینت کی شادی کا انتظام کیا، دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے دئیے اور پانچ ہزار نقد دئیے۔

محمد شفیق طوسی، محمد یاسین پروپرائیٹر نگینہ ہوٹل، سینڈو، میوزک ٹیچر اور بابو گوپی ناتھ شادی میں شامل تھے، دولہن کی طرف سے سینڈو وکیل تھا۔

ایجاب و قبول ہوا تو سینڈو نے آہستہ سے کہا دھڑن تختہ۔

غلام حسین سرج کا نیلا سوٹ پہنے تھا، سب نے اس کو مبارک باد دی جو اس نے خندہ پیشانی سے قبول کی، کافی وجیہہ آدمی تھا، بابو گوپی ناتھ اس کے مقابلے میں چھوٹی سی بٹیر معلوم ہوتا تھا۔

شادی کی دعوتوں پر خوردو نوش کا جو سامان بھی تھا، بابو گوپی ناتھ نے مہیا کیا تھا، دعوت سے جب لوگ فارغ ہوئے تو بابو گوپی ناتھ نے سب کے ہاتھ دھلوائے، میں جب ہاتھ دھونے گیا تو اس نے مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچوں کے سے انداز میں کہا، منٹو صاحب ذرا اندر جائیے اور دیکھئے زینو دولہن کے لباس میں کیس لگتی ہے۔

میں پردھ ہٹا کر اندر داخل ہوا، زینت سرخ زر بفت کا شلوار کرتہ پہنے تھی۔۔۔۔۔دوپٹہ بھی اس رنگ کا تھا، جس پر گوٹ لگی تھی، چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا، حالانکہ مجھے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی بہت بری معلوم ہوتی تھی، مگر زینت کے ہونٹ سجے ہوئے تھے، اس نے شرما کر مجھے آداب کیا تو بہت پیاری لگی، لیکن جب میں نے دوسرے کونے میں ایک مسہری دیکھی جس پر پھول پھول تھے تو مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی، میں زینت سے کہا یہ کیا مسخرہ پن ہے۔

زینت نے میری طرف بالکل کبوتری کی طرح دیکھا، آپ مذاق کرتے ہیں بھائی جان،اس نے یہ کہا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔

مجھے اس غلطی کا احساس بھی نہ ہوا تھا کہ بابو گوپی ناتھ اندر داخل ہوا، بڑے پیار سے اس نے اپنے رومال کے ساتھ زینت کے آنسو پونچھے اور بڑے دکھ کے ساتھ مجھ سے کہا منٹو صاحب میں سمجھتا تھا آپ بڑے سمجھ دار اور لائق آدمی ہیں۔۔۔۔۔ زینو کا مذاق اڑانے سے پہلے آپ نے کچھ سوچ لیا ہوتا۔

بابو گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اسے مجھ سے تھی، زخمی نظر آئی لیکن پیشتر اس کہ کہ میں اس سے معافی مانگوں، اس نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہ، خدا تمہیں خوش رکھے۔

یہ کہہ کر بابو گوپی ناتھ نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا ان میں ملامت تھی۔۔۔۔۔ بہت ہی دکھ بھری ملامت۔۔۔۔۔۔اور چلا گیا۔