ترلوچن نے پہلی مرتبہ۔۔۔۔۔۔چار برسوں میں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ اس کی طبعیت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ نہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کیلئے اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔

آسمان بالکل صاف تھا بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا، حد نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں، ترلوچن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے، اور جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہے ہیں۔

ترلوچن کیلئے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی،۔۔۔رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا، اور قدرست تھی کہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم، قریب قریب تین بجے تھے، ہوا بے حد ہلکی ہلکی تھی، ترلوچن پنکھے کی میکانی ہوا کا عادی ہو چکا تھا، جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کر دیتی تھی، صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا، کہ رات بھر اس اس کو مارا پیٹا گیا ہے، پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، تر و تازگی چوس کر خوش ہو رہا تھا، جب وہ اوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا، لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کر رہا تھا، کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا اور اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔ کرپال کور اور کا سارا خاندان۔۔۔۔۔محلے میں تھا، جو کٹر مسلمانوں کا مرکز تھا، یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی، کئی جانیں تلف ہو چکی تھیں، ترلوچن ان سب کو لے آیا ہوتا، مگر مصیبت یہ تھی، کہ کرفیو نافذ ہو گیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔۔۔۔غالباً اڑتالیس گھنٹوں کا۔۔۔۔۔ اور ترلوچن لازما مغلوب تھا، آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک مسلمان تھے، اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں، کوئی بھی ہاتھ۔۔۔مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جا سکتا تھا۔

کرپال کی ماں اندھی تھی، باپ مفلوج، بھائی تھا، وہ کچھ عرصے سے دیوالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لئے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی، ترلوچن کو کرپال کے بھائی نرجن پر بہت غصہ آتا تھا، اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندہی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کر دیا تھا، اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا، نرنجن یہ ٹھیکے ویکے رہنے دو ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں، تمہارا اگر چہ رہنا بہت ضروری ہے، لیکن یہاں سے اٹھ جاؤں اور میرے یہاں چلے آؤ، اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے، لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیا کرتا ہے، مگر وہ مانا، اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صاف اپنی گھنی موچھوں میں مسکرادیا، یار تم خواہ مخواہ فکر مند ہوتے ہو۔۔۔۔میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں، یہ امرتسر یا لاہور نہیں ہے، بمبے ہے۔۔۔۔۔بمبے تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں، اور میں بارہ برس سے یہاں ہوں۔۔۔۔۔بارہ برس سے۔

جانے نرجن بمبئی کو کیا سمجھتا تھا، اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے، اگر فساد برپا بھی ہو تو انکو اثر خود بخود زائل ہوتا ہے، جیسے کہ اس کے پاس چھو منتر ہے۔۔۔۔۔۔یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے، جس پر کوئی آفت نہیں آ سکتی ہے مگر ترلوچن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔محلہ بالکل محفوظ نہیں، وہ تو صبح کے اخباروں میں یہ بھی پڑھنے کیلئے تیار تھا کہ کرپال کور اور اس کے ماں بار قتل ہو چکے ہیں۔اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پرواہ نہیں تھی، وہاں دیو لالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو اور بھی اچھا تھا، کہ ترلوچن کیلئے میدان صاف ہو جاتا، خاص طور پر نرنجن اس کے راستے میں ایک روڑا ہی نہیں، بہت بڑا گھنگھرا تھا چنانچہ جب کبھی کرپال کور اس کی بات ہوتی تو وہ اسے نرنجن سنگھ کے بجائے کھنگر سنگھ کہتا۔

صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔۔۔۔ ترلوچن کا کیسوں سے بے نیاز سر بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کر رہا تھا مگر اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی، وہ یوں تو ہے کئے کھنگھر سنگھ کی بہن تھی، مگر بہت ہی نرم، نازک لچکیلی تھی، اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی، وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھیں تھیں، مگر اس میں وہ سختی، وہ گھٹاؤ، وہ مردانہ پن، نہیں تھا، جو دیہات کی عام سکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے، جنہیں کڑی سے کڑی مشقت کرنے پڑتی ہے۔

اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں، چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی، عام سکھ لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح اور بدن چکنا تھا، جس طرح مرسی رائزڈ کپڑے کی سطح ہوتی ہے، بے حد شرمیلی تھی۔

ترلوچن اسی کے گاؤں کا تھا، مگر زیادہ دیر وہاں رہا نہیں تھا، پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھر وہیں کا ہو گیا، اسکول سے فارغ ہو کر کالج کی تعلیم شروع ہو گئی، اس دوران میں کئی مرتبہ لاتعداد مرتبہ اپنے گاؤں گیا، مگر اس نے کرپال کور کے ناک کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا شاید اس لئے کہ ہر بار اس افراتفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔

کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا، اڈوانی چیمبرز کے ٹیریس اور کالج کی عمارت میں غالباً دس برس کا فاصلہ اور یہ فاصلہ ترلوچن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پر تھا، برما، سنگا پور، ہانگ کانگ۔۔۔۔پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی، جو بری نہیں تھی۔۔۔۔خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہادئیے، روشن تھے، اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔

کر پال کور کا سوچتے سوچتے، وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا، اس یہودی لڑکی کے بارے جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی، اس سے ترلوچن کو گوڈے گوڈے عشق ہو گیا تھا، ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔

جس دن اس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے مالے پر فلیٹ لیا اسی دن اس کی مڈ بھیڑ موذیل سے ہوئی۔ گو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک دیوانی معلوم ہوئی، کٹے ہوئے بھورے بال، اس کے پریشان تھے، بے حد پریشان، ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چیختی ہوئی تھی، ڈھیلا ڈھالا لمبا سفید چغہ پہنے تھی، جس کے کھلے گریباں سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں چوتھائی کے قریب نظر آ رہی تھی، بانہیں جو کہ ننگی تھیں، مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی تھیں، جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کر آئی ہے، اور ان کی ننھی ننھی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔ ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی گئی تھی، کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔

ترلوچن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا بیچ میں ایک تنگ گلی تھی، بہت ہی تنگ، جب ترلوچن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا تو موذیل باہر آ گئی، کھڑاؤں پہنے تھی، ترلوچن ان کی آواز سن کر رک گیا، موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں میں سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلوچن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔۔۔۔۔۔ترلوچن بوکھلا گیا، جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا، موذیل کی ایک کھڑاؤں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آ رہی۔

جب ترلوچن سنبھلا تو موذیل اس کے اوپر تھی، کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی، بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے ادھر ادھر تھیں، اور جب ترلوچن نے اٹھنے کی کوشش کی تو بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل۔۔۔۔۔ساری موذیل سے الجھا جیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔جب ترلوچن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں اس سے معافی مانگی، موذیل نے اپنا لبادہ ٹھیک کیا اور مسکرادی یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے، اور وہ اتری ہوئی کھڑاؤں میں اپنا انگوٹھا اور اس کے ساتھ والی انگلی پھنساتی کوریڈور سے باہر چلی گئی۔

تر لو چن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی، لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی، وہ ترلوچن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی، اس سے کھاتی تھی، اس سے پیتی تھی، اس کے ساتھ سینما جاتی تھی، سارا سارا دن اس کے ساتھ جو ہو پر نہاتی تھی، لیکن جب وہ بانہوں اور ہونٹوں سے آگے بڑھنا چاہتا تو اسے ڈانٹ دیتی، کچھ اس طور پر سے گھر کتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھو میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔

ترلوچن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوئی تھی، لاہور میں، برما، سنگاپور میں وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لئے خرید چکا تھا، اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئے پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الہڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنس جائے گا، وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی، اس کے کہنے پر فورا سج بن کر سینماجانے پر تیار ہو جاتی تھی، مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو ادھر ادھر نگاہیں دوڑانا شروع کر دیتی، کوئی اس کا آشنا نکل آئے تو اس سے ہاتھ ہلاتی اور ترلوچن سے اجازت لئے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔

ہوٹل میں بیٹھے ہیں ترلوچن نے خاص طور پر موذیل کیلئے پر تکلف کھانے منگوائے ہیں، مگر اس کو کوئی اپنا دوست نظر آ گیا اور وہ نوالہ چھوڑ کر پاس جا بیٹھتی ہے اور ترلوچن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔ ترلوچن بعض اوقات بھنا جاتا تھا، کیونکہ وہ اسے قطعی طور پر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناساؤں کے ساتھ چلی جاتی تھی، اور کئ کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی، کبھی سر درد کا بہانہ، کبھی پیٹ کی خرابی، جس کے متعلق ترلوچن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہو سکتا۔جب اس سے ملاقات ہوتی ہے تو اس سے کہتی ہے، تم سکھ ہو۔۔۔۔۔یہ نازک باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔

ترلوچن بھن جاتا اور پوچھتا کون سی نازک باتیں۔۔۔تمہارے پرانے یاروں کی؟

موذیل دونوں ہاتھ جوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کر دیتی اور کہتی یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے رہتے ہو۔۔۔۔۔ہاں وہ میرے یار ہیں۔۔۔۔اور مجھے اچھے لگتے ہیں، تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔

ترلوچن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا ہے اس طرح تمہاری میری کس طرح نبھے گی۔

موذیل زور کا قہقہہ لگاتی ہے، تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔ایڈیٹ تم سے کس نے کہا کہ میرے ساتھ نبھاؤ۔۔۔۔۔اگر نبھانے کی بات ہے تو جاؤ اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کر لو۔۔۔۔میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔

ترلوچن نرم ہو جاتا، دراصل موذیل اس کی زبردست کمزور ی بن گئی تھی، وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہشمند تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی، معمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا، مگر دل سے مجبور ہو کر یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔

عام طور پر توہین اور ہتک کا رد عمل انتقام ہوتا ہے، مگر ترلوچن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا، اس نے اپنے دل و دماغ کی بہت سے آنکھیں میچ لی تھی، اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی، اس کو موذیل پسند تھی۔۔۔۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا گوڈے گوڈے اس کے عشق میں دھنس گیا تھا، اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے وہ بھی اس عشق کے دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔

دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا، لیکن ثابت قدم رہا، آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی، اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر پوچھا موذیل کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔موذیل اس کے بازوؤں سے جدا ہو گئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیں اور گھنی پلکیں چھپکا کر کہا، میں سکھ سے محبت نہیں کر سکتی۔

ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں، اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔۔موذیل تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔۔۔۔یہ میرا مذاق نہیں، میری محبت کا مذاق ہے۔

موذیل اٹھی اور اس نے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دل فریب جھٹکا دیا، تم شیو کرا لو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔۔۔تو میں شرط لگا سکتی ہو ں کہ کئ لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔۔۔۔تم خوبصورت ہو۔

ترلوچن کے کیسوں میں مزید چنگاریاں پڑ گئیں، اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسٹیا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کر دئیے۔

موذیل نے ایک دم پھوں پھوں کی اوراس کی گرفت سے علیحدہ ہو گئی، میں صبح اپنے دانتوں کو برش کر چکی ہوں، تم تکلیف نہ کرو۔

ترلوچن چلایا، موذیل۔

موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آ گئی تھیں، خدا قسم۔۔۔تم اپنی داڑھی اور مونچھوں کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلو اسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کر سکتے ہیں،۔۔۔۔بس تھوڑا سا پیٹرول لگانے کی ضرورت ہو گی۔

ترلوچن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا، جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا، آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا، موذیل بھی آ گئی اور اس نے ترلوچن کی داڑھی کھولنی شروع کر دی۔۔۔۔اس میں جو پنیں لگی تھیں وہ اس نے ایک ایک کر کے اپنے دانتوں تلے دبا لیں۔

ترلوچن خوبصورت تھا، جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اگی تھی تو واقعی لوگ اس کے کھلے گیسؤوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے، کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدوخال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپا لئے تھے، اس کو اس کا احساس تھا، مگر وہ ایک اطاعت شعار بردار لڑکا تھا، اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا، وہ نہیں چاہتا تھا، کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کر دے، جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔

جب داڑھی پوری کھل گئی اور اسکے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا، یہ تم کیا کر رہی ہو؟

دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی،تمہارے بال بہت ملائم ہیں۔۔۔۔۔میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلو اسکرٹ صاف ہو جائے گا تر لوچ تم یہ مجھے دے دو میں انہیں گوندھ کر اپنے لئے ایک فسٹ کلاس بٹوا بناؤں گئی۔

اب تو ترلوچن کی داڑھی میں چنگاریاں پھڑکنے لگیں، وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا، میں نے آج تک تمہارے مذہب کا مذاق اڑایا ہے تم کیوں اڑاتی ہو۔۔۔دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا مگر صرف اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔۔۔۔کیا تمہیں اس کا پتہ نہیں۔

موذیل نے ترلوچن کی داڑھی سے کھیلنا بند کر دیا، معلوم ہے۔

پھر ترلوچن نے اپنی داڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہہ کئے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں، تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔۔۔میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔

مجھے معلوم ہے، بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی، میں بھی قریب یہی فیصلہ کر چکی ہو کہ تم سے شادی کروں گی۔

ترلوچن اچھل پڑا سچ؟

موذیل کے عنابی ہونٹ موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کھلے اور اس کے سفید مخبوط دانت ایک لحظے کیلئے چمکے۔ہاں۔

ترلوچن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی داڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ تو تو کب؟

موذیل الگ ہٹ گئی، جب۔۔۔۔۔تم اپنے بال کٹوا دو گے جب۔

ترلوچن اس وقت جو ہو سو ہو تھا، اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا میں کل ہی کٹوا دوں گا۔

موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے لگی، تم بکواس کرتے ہو ترلوچ۔۔۔۔۔تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔

اس نے ترلوچن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا، تم دیکھ لو گی۔

اور وہ تیزی سے آگے بڑھی ترلوچ کی مونچھوں کو چوما اور پھو پھوں کرتی باہر نکل گئی۔

ترلوچن نے رات بھر کیا سوچا۔۔۔وہ کن کن اذیتوں سے گزرا، اس کا تذکرہ فضول ہے اس لئے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوا دئیے اور داڑھی بھی منڈوا دی۔۔۔۔یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا، جب سارا معاملہ صاف ہو گیا تو اس نے آنکھیں کھول لیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہا، جس میں بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کیلئے غور کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

ترلوچن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا، جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی، اس نے ٹیرس پر تیز تیز چلنا شروع کر دیا، جہاں ٹینکوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے مگر وہ بن نہ رہا۔ بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا، اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کی بھیجی کہ اس کی طبعیت ناساز ہے تھوڑی دیر کیلئے آ جائے، موذیل آئی ترلوچن کو بالوں کے بغیر دیکھ کر پہلے وہ ایک لحظے کیلئے ٹھٹکی پھر مائی ڈارلنگ ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی اور عربی زبان میں نعرے مارتی رہی، اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔۔۔۔۔۔موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی اسکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کر دیا۔۔۔۔ ترلوچن شرما گیا، اس نے اسکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پراس سے کہا، نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔ موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ھوا، باسی اور جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ایسے ہی چلتا ہے۔

ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا جب وہ موذیل دونوں ٹکرا گئے اور آپس میں عجیب طرح گڈ مڈ ہو گئے تھے، مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا، شادی کل ہو گی؟

ضرور، موذیل نے ترلوچن کی ملائم تھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔

طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو، چونکہ سول میرج تھی، اس لئے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا، عدالتی کارروائی تھی، اس لئے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے، پاس ہے اور ترلوچن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں، دوسرے روز انہیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہو جاتا تھا۔

موذیل فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی، اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا، بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کیلئے کہا تھا،۔۔۔ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا، ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا، مگر وہ نہ آئی، دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے، دیولالی چلی گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کیلئے وہیں رہے گی۔

ترلوچن پر کیا گزری؟۔۔۔ایک بڑی لمبی کہانی ہے، قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑا کیا اور اس کو بھول گیا۔۔۔۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہو گئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی، جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے ہیں اور جو چڑوں کی مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا، اس احساس سے اس کو گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد میں ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کد کڑے لگاتی غائب ہو جاتی تھی۔

وہ بے حیا تھی۔۔۔۔۔بے مروت تھی، اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا ترلوچن کو پسند تھی، اس لئے کبھی کبھی اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا، کہ وہ دیولالی میں اتنے عرصے سے کیا کر رہی ہے،، اس آدمی کے ساتھ ہے جس نے نئی نئی کار خریدی تھی، یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے، اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہو گی، حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔

وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا، لیکن اپنی مرضی سے، ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی، اس کو بہت سسی قسم کی چیزیں پسند آتی تھی، ایک مرتبہ ترلوچن نے اسے سونے کی ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مر مٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلوچن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انہیں خرید دے۔

ترلوچن اب تک نہ سمجھ سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے، کس آب و گل سے بنی ہے، وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی اور اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی، وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا، مگر وہ اس کو اس سے آگے ایک انچ نہ بڑھنے دیتی تھی، اس کو چرانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی کہ تم سکھ ہو۔۔۔۔مجھے تم سے نفرت ہے۔

ترلوچن اچھی طرح محسوس کرتا تھا، کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں ہے،اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی، برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر نہیں تھا، وہ کبھی کبھار دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی، دو ٹک فیصلہ کر دیتی، انڈروئیر اس کو ناپسند تھے اس لئے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی، ترلوچن نے کئی بار اس کو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا، اس کو شرم و حیا کا واسطہ دیا، مگر اس اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔

ترلوچن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا تو وہ چڑ جاتی تھی، یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔۔۔اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کر لیا کرو۔۔۔۔تم مجھے یہ بتاؤ کہ کون سا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔یا جس میں سے تمہاری نگاہیں پار نہیں ہو سکتیں۔۔۔۔۔۔مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔۔۔۔۔تم سکھ ہو۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سلی انڈروئیر پہنتے ہو جو نیکر سے ملتاجلتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ بھی تمہاری داڑھی اور سر کے بالوں کی طرح تمہارے مذہب میں شامل ہے۔۔۔۔۔شرم آنی چاہئیے۔۔۔۔۔۔اتنے بڑے ہو گئے اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمہارا مذہب انڈروئیر میں چھپا بیٹھا ہے۔

ترلوچن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نادرست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور داڑھی کا صفایا کرا دیا تھا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا بوجھ اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب نہیں تھا۔

پانی کی ٹنکی کے پاس پہنچ کر ترلوچن رک گیا، موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کر دیا،۔۔۔کرپال کور، ایک پاکیزہ لڑکی جس سے اس کو محبت ہوئی تھی، خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی، جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین وارداتیں بھی ہو چکیں تھیں۔۔۔۔۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا، مگر اڑتالیس گھنٹے کے کرفیو کی کون پروا کرتا ہے، اس چالی کے مسلمان اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کا، اس کی ماں کا، اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کر سکتے تھے۔

ترلوچن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا، اس کے سر کے بال اب کافی لمبے ہو گئے تھے، اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسیوں میں تبدیل ہو جائیں گے، اس کی داڑھی تیزی سے بڑھی تھی مگر اسے بڑھانا نہیں چاہتا تھا، فورٹ میں ایک باربر تھا، وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا، کہ ترشی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔۔۔۔

اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔۔۔اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا۔۔۔ کہ اسے کھڑاؤں کی کرخت آواز سنائی دی، اس نے سوچا کون ہو سکتا ہے؟۔۔بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں، جو کہ سب کھڑاؤں پہنتی تھیں۔۔۔۔۔۔آواز قریب آتی گئی، یک لخت اس نے دوسری ٹنکی کے پاس موذیل کو دیکھا۔جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا کرتہ پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔۔۔۔۔اس زور کی کہ ترلوچن کو محسوس ہوا کہ آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔

ترلوچن پانی کے نل پر سے اٹھا، اس نے سوچا یہ ایکا ایک کہاں سے نمودار ہو گئی۔۔۔۔اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے؟

موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔۔۔۔۔۔۔اب ترلوچن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔

ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔۔۔۔۔۔۔ترلوچن کی آنکھوں کے سامنے کئ گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے، وہ زور سے کھانسا، موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا، اس کا رد عمل بالکل خفیف تھا، کھڑاؤں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی ننھی منی داڑھی دیکھنے لگی، تم پھر سکھ بن گئے تر لو چ؟

داڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔

موذیل نے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا، اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیوی بلو اسکرٹ صاف کر سکے۔۔۔مگر وہ تو وہیں دیولالی میں رہ گئی ہے۔

ترلوچ خاموش رہا۔

موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟

ترلوچن اپنی پچھلی بے وقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا، تاہم اس نے صبح کے ہلکے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔۔۔۔کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی، ایک طرح وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی، ترلوچن نے اس سے پوچھا، بیمار رہی ہو؟

نہیں موذیل نے اپنے تراشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔

پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟

میں ڈائیٹنگ کر رہی ہوں، موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑاؤں فرش کے ساتھ بجانے لگی، تم گویا کہ۔۔۔۔اب پھر۔۔۔نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔

ترلوچن نے کسی قدر ڈھٹائی کے ساتھ کہا، ہاں۔

مبارک ہو موذیل نے ایک کھڑاؤں پیر سے اتار لی اور پانی کے تل پر بجانے لگی کسی اور لڑکی سے محبت کرنی شروع کر دی۔

ترلوچن نے آسہتہ سے کہا، ہاں۔

مبارک ہو۔۔۔۔اسی بلڈنگ کی ہے کوئی؟

نہیں۔

یہ بہت بری بات ہے، موذیل کھڑاؤں اپنی انگلیوں میں اڑس کر اٹھی، ہمیشہ آدمی کو اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہئیے۔

ترلوچن خاموش رہا، موذیل نے بڑھ کر اس کی داڑھی کو اپنی پانچوں انگلیوں سے چیرا، کیا اس لڑکی نے تم کو بال بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔

نہیں۔

ترلوچن بڑی الجھن محسوس کر رہا تھا، کنگھا کرتے کرتے اس کی داڑھی کے بال آپس میں الجھ گئے ہیں، جب اس نے نہیں کہا تو اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔

موذیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہوتی تھی، وہ مسکرائی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کہ گاؤں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ مسکرانے کے بعد وہ ہنسی، تم اب یہ داڑھی منڈا ڈالو تو کسی کی بھی قسم لے لو، میں تم سے شادی کر لوں گی۔ ترلوچن کے جی میں آیا کہ اس سے کہے کہ وہ ایک بڑی شریف، با عصمت اور پاک طینت کنواری لڑکی سے محبت کر رہا ہے، اور اسی سے شادی کرے گا۔۔۔۔۔موذیل اس کے مقابلے میں فاحشہ ہے، بد صورت ہے، بے وقوف ہے، بے مروت ہے، مگر وہ اس قسم کا گھٹیا آدمی نہیں تھا، اس نے موذیل سے صرف اتنا کہا، موذیل میں اپنی شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں، میرے گاؤں کی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔جو مذہب کی پابند ہے، اسی لئے میں نے بال بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

موذیل سوچ بچار کی عادی نہیں تھی، لیکن اس نے کچھ دیر سوچا اور کھڑاؤں پر نصف دائرے میں گھوم کر ترلوچن سے کہا، وہ مذہب کی پابند ہے تو تمہیں کیسے قبول کرے گی کیا اسے معلوم نہیں کہ تم ایک دفعہ اپنے بال کٹوا چکے ہو؟ اس کو ابھی تک معلوم نہیں۔۔۔۔۔داڑھی میں نے تمہارے دیولالی جانے کے بعد ہی بڑھانی شروع کر دی تھی۔۔۔۔۔محض انتقامی طور پر۔۔۔۔۔۔اس کے بعد میری کرپال کور سے ملاقات ہوئی مگر میں پگڑی اس طریقے سے باندھتا ھوں کہ سو میں سے ایک ہی آدمی مشکل سے جان سکتا ہے کہ میرے کیس کٹے ہوئے ہیں۔ مگر اب یہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے، ترلوچن نے اپنے لمبے ملائم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کر دی۔

موذیل نے لمبا کرتا اٹھا کر اپنی گوری گوری دبیز ران کھجانی شرو ع کر دی، یہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔مگر یہ کمبخت مچھر یہاں بھی موجود ہیں۔۔۔۔دیکھا کس زور سے کاٹا ہے۔ ترلوچن نے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا، موذیل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاٹا تھا انگلی سے لب لگائی اور کرتہ چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہو گئی، کب ہو رہی ہے تمہاری شادی؟ ابھی کچھ نہیں یہ کہہ کر تو لو چن سخت متفکر ہو گیا۔

چند لمحات کی خاموشی رہی، اس کے بعد موذیل نے اس کے تفکر کا اندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا،ترلوچن۔۔۔۔تم کیا سوچ رہے ہو؟ ترلوچن کو اس وقت کسی ہمدرد کی ضرورت تھی، خواہ وہ موذیل ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سنادیا، موذیل ہنسی، تم اول نمبر کے ایڈیٹ ہو۔۔۔۔جاؤ اس کو لے آؤ، ایسی کیا مشکل ہے۔ مشکل۔۔۔۔موذیل تم اس معاملے کی نزاکت کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔۔۔۔کسی بھی معاملے کی نزاکت۔۔۔۔۔۔تم ایک لا ابالی قسم کی لڑکی ہو۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ تمہارے اور میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے،جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔

موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں پانی کے نل کے ساتھ ماری، افسوس ایڈیٹ۔۔۔تم سے سوچو کہ تمہاری اس۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔اس حملے سے بچا کر لانا کیسے ہے۔۔۔تم بیٹھ گئے ہو تعلقات کا رونا رونے۔۔۔۔تمہارے میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے۔۔۔۔۔تم ایک سلی قسم کے آدمی ہو۔۔۔۔اور بہت ڈرپوک، مجھے نڈر مرد چاہئیے۔۔۔۔۔لیکن چھوڑ ان باتوں کو۔۔۔۔۔چلو آؤ تمہاری اس کور کو لے آئیں۔

اس نے ترلوچن کا بازو پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔ترلوچن نے گھبراہٹ میں اس سے پوچھا کہاں سے؟

وہیں سے جہاں وہ ہے۔۔۔۔۔میں اس محلے کی ایک ایک اینٹ کو جانتی ہوں، چلو آؤ میرے ساتھ۔

سنو تو۔۔۔کر فیو ہے۔

موذیل کیلئے نہیں۔۔۔۔چلو آؤ۔

وہ ترلوچن کو بازوسے پکڑ کر کھینچتی اس دروازے تک لے گئی ہے جو نیچے سیڑھیوں کی طرف کھلتا تھا،دروازہ کھول کر وہ اتر نے والی تھی کہ رک گئی اور ترلوچن کی داڑھی کی طرف دیکھنے لگی۔

ترلوچن نے پوچھا کیا بات ہے؟

موذیل نے کہا یہ تمہاری داڑھی۔۔۔۔۔لیکن خیر ٹھیک ہے، اتنی بڑی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ننگے سر چلو تو کوئی نہیں سمجھے گا کہ تم سکھ ہو۔

موذیل نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا،کیوں؟

ترلوچن نے اپنے بالوں کی ایک لٹ ٹھیک کی، تم سمجھتی نہیں ہو، میرا وہاں پگڑی کے بغیر جانا ٹھیک نہیں ہے۔

کیوں ٹھیک نہیں ہے۔

تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ اس نے مجھے ابھی تک ننگے سر نہیں دیکھا۔۔۔۔وہ یہی سمجھتی ہے کہ میرے کیس ہیں، میں اس پر یہ راز افشاں نہیں کرنا چاہتا۔

موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں دروازے کی دہلیز پر ماری، تم واقعی اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔۔۔۔۔گدھے کہیں کے۔۔۔۔۔اس کی جان کا سوال ہے۔۔۔۔۔کیا نام ہے۔۔۔۔ تمہاری اس کور کا، جس سے تم محبت کرتے ہو۔

ترلوچن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، موذیل وہ بڑی مذہبی قسم کی لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔اگر اس نے مجھے ننگے سر دیکھ لیا تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔ موذیل چڑھ گئی، اوہ تمہاری محبت۔۔۔۔میں پوچھتی ہوں کیا سارے سکھ تمہاری طرح کے بیوقوف ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔اس کی جان کا خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑی ضرور پہنو گے۔۔۔۔اور شاید وہ اپنا انڈروئیر بھی جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔ ترلوچن نے کہا وہ تو میں ہر وقت پہنتا ہوں۔

بہت اچھا ہے کرتے ہو۔۔۔مگر اب تم یہ سوچو کہ معاملہ اس محلے کا ہے جہاں میاں بھائی رہتے ہیں، اور وہ بھی بڑے بڑے داد اور بڑے بڑے موالی۔۔۔تم پگڑی پہن کر گئے تو وہیں ذبح کر دئیے جاؤ گے۔ ترلوچن نے مختصر سا جواب دیا، مجھے اس کی پرواہ نہیں۔۔۔۔اگر میں تمہارے ساتھ وہاں جاؤں گا تو پگڑی پہن کر جاؤں گا۔۔۔۔میں اپنی محبت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا۔

موذیل جھنجلا گئی، اسی روز سے اس نے پیچ و تاب کھائے کہ اس کی چھاتیاں آپس میں بھڑ بھڑ گئیں، گدھے۔۔۔۔۔تمہاری محبت ہی کہاں رہے گی، جب تم نہ رہو گے۔۔۔۔تمہاری وہ۔۔۔کیا نام ہے اس بھڑوی کا۔۔۔۔جب وہ بھی نہ رہے گی، اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔۔۔تم سکھ ہو۔۔۔۔خدا کی قسم تم سکھ ہو اور بڑے ایڈیٹ سکھ ہو۔ ترلوچن بھنا گیابکواس نہ کرو۔

موذیل زور سے ہنسی، مہین مہین بالوں کے غبار سے اٹی ہوئی بانہیں اس نے ترلوچن کے گلے میں ڈال دیں اور تھوڑا سا جھول کر کہا، ڈارلنگ چلو، جیسے تمہاری مرضی۔۔۔۔جاؤ پگڑی پہن آؤ، میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ نیچے جانے لگی ترلوچن نے اسے روکا تم کپڑے نہیں پہنو گی، موذیل نے اپنے سر کو جھکا کر کہا، نہیں۔۔۔۔۔چلے گا اسی طرح۔

یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی نیچے اتر گئی، ترلوچن نچلی منزل کی سیڑھیوں پر بھیاس کی کھڑاؤں کی چوبی آواز سنتا رہا، پھر اس نے اپنے لمبے لمبے بال انگلیوں سے پیچھے کی طرف سمیٹے اور نیچے اتر کر اپنے فلیٹ میں چلا گیا، جلدی جلدی اس نے کپڑے تبدیل کئے پگڑی بندھی بندھائی رکھی تھی، اسے اچھی طرح سر پر جمایا اور فلیٹ کا دروازہ مقفل کر کے نیچے اتر گیا۔باہر فٹ پاتھ پر موذیل اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کئے سگریٹ پی رہی تھی، بالکل مردانہ انداز میں جب ترلوچن اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے شرارت کے طور پر منہ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا، ترلوچن نے غصے میں کہا تم بہت ذلیل ہو۔

موذیل مسکرائی، یہ تم نے کوئی نئی بات نہیں کی۔۔۔۔۔اس سے پہلے اور کئ مجھے ذلیل کہہ چکے ہیں، پھر اس نے ترلوچن کی پگڑی کی طرف دیکھا یہ پگڑی تم نے واقعی بہت اچھی طرح باندھی ہے۔۔۔۔۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تمہارے کیس ہیں۔

بازار بالکل سنسان تھا۔۔۔۔ایک طرف ہوا چل رہی ہو، اور وہ بھی دھیرے دھیرے جیسے کرفیو سے خوفزدہ ہے، بتیاں روشن تھیں، مگر ان کی روشنی بیمار سی معلوم ہوتی تھی، عام طور پر اس وقت ٹریمیں چلنی شروع ہو جاتی تھیں، اور لوگوں کی آمد و رفت بھی جاری ہو جاتی تھی، اچھی خاصی گہما گہمی ہوتی تھی، پر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئی انسان گزرا ہے نہ گزرے گا۔

موذیل آگے آگے تھی، فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی کھڑاؤں کھٹ کھٹ کر رہی تھیں، یہ آواز، اس خاموش فضا میں ایک بہت بڑا شور تھی ترلوچن دل ہی دل میں موذیل کو برا بھلا کہہ رہا تھا، کہ دو منٹ میں اور کچھ نہیں تو اپنی واہیات کھڑاؤں چھوڑ کر کوئی اور دوسری چیز پہن سکتی تھی، اس نے سوچا کہ موذیل سے کہے، کھڑاؤں اتار دو اور ننگے پاؤں چلو، مگر اس کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی، اس لئے خاموش رہا۔

ترلوچن سخت خوفزدہ تھا، کوئی پتا کھڑکتا تو اس کا دل دھک سے رہ جاتا تھا، مگر موذیل بالکل بے خوف چلی جا رہی تھی، سگریٹ کا دھواں اڑاتی جسیے وہ بے فکری سے چہل قدمی کر رہی ہے۔

چوک میں پہنچے تو پولیس مین کی آواز گونجی۔۔۔۔۔۔اے کدھر جار ہے ہو۔ ترلوچن سہم گیا، موذیل آگے بڑھی اور پولیس مین کے پاس پہنچ گئ اور بالوں کو ایک خفیف جھٹکا دیا اور کہا کہ وہ تم۔۔۔۔ہم کو پہچانا نہیں۔ موذیل۔۔۔۔۔پھر اس نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا، ادھر اس باجو۔۔۔۔۔ہمارا بہن رہتا ہے، اس کی طبعیت خراب ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹر لے کر جا رہا ہے۔ سپاہی اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی اور ایک سگریٹ نکال کر اس کو دیا۔ لو پیو۔سپاہی نے سگریٹ لے لیا، موذیل نے اپنے منہ سے سلگا ہوا سگریٹ نکالا اور اس سے کہا، ہئیر از لائٹ۔

سپاہی نے سگریٹ کا کش لیا، موذیل نے داہنی آنکھ اس کو اور بائیں آنکھ ترلوچن کو ماری اور کھٹ کھٹ کرتی اس گلی کی طرف چل دی۔۔۔جس میں سے گزر کر انہیں۔۔۔۔محلے جانا تھا۔

ترلوچن خاموش تھا، مگر وہ محسوس کر رہا تھا، کہ موذیل کرفیو کی خلاف ورزی کر کے عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس ہو رہی تھی، خطروں سے کھیلنا اسے پسند تھا، وہ جب جو ہو پر اس کے ساتھ جاتی تھی، تو اس کے لئے مصیبت بن جاتی ہے، سمندر کی پیل تن لہروں سے ٹکراتی، بھڑتی وہ دور تک نکل جاتی تھی اور اس کو ہمیشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ کہیں وہ ڈوب نہ جائے، جب واپس آتی تو اس کا جسم نیلوں اور زخموں سے بھرا ہوتا تھا مگر اسے ان کی کوئی پروہ نہیں ہوتی تھی۔

موذیل آگے آگے تھی ترلوچن اس کے پیچھے پیچھے، ڈر ڈر کے ادھر ادھر دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی بغل میں سے کوئی چھری مار نمودار نہ ہو جائے، موذیل رک گئی جب ترلوچن پاس آیا تو اس نے سمجھانے کے انداز میں اس سے کہا ترلوچ ڈئیر۔۔۔۔۔اس طرح ڈرنا اچھا نہیں۔۔۔۔تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔۔۔۔۔۔۔سچ کہتی ہو، یہ میری آزمائی ہوئی بات ہے۔

ترلوچن خاموش رہا۔

جب وہ گلی طے کر کے دوسری گلی میں پہنچے جو اس محلے کی طرف نکلتی تھی جس میں کرپال کور رہتی تھی۔۔۔۔۔تو موذیل چلتے چلتے ایک دم رک گئی، کچھ فاصلے پر بڑے اطمینان سے ایک مارواڑی کی دکان لوٹی جا رہی تھی، ایک لحظے کیلئے اس نے اس معاملے کا جائزہ لیا اور ترلوچن سے کہا، کوئی بات نہیں۔۔۔۔چلو آؤ۔

دونوں چلنے لگے۔۔۔۔۔ایک آدمی جو سر پر بہت بڑی پرات اٹھائے چلا آ رہا تھام ترلوچن سے ٹکرا گیا، اس آدمی نے غور سے ترلوچن کی طرف دیکھا، صاف معلوم ہوتا تھا، کہ وہ سکھ ہے، اس آدمی نے جلدی سے اپنے نیفے میں ہاتھ ڈالا، کہ موذیل آ گئی، لڑکھڑاتی ہوئی جیسے نشے میں چور ہے، اس نے زورسے اس آدمی کو دھکا دیا اور مخمور لہجے میں کہا، اے کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔ اپنے بھائی کو مارتا ہے۔۔۔۔۔۔ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے۔۔۔۔۔پھر وہ تر لو چن سے مخاطب ہوئی کریم۔۔اٹھاؤ، پرات اور رکھ دو اس کے سر پر۔

اس آدمی نے نے نیفے سے ہاتھ نکال لیا اور شہوانی آنکھوں سے موذیل کی طرف دیکھا، پھر آگے بڑھ کر اپنی کہنی سے اس کی چھاتیوں میں ایک ٹہوکا دیا عیش کر سالی۔۔۔۔۔عیش کر پھر اس نے پرات اٹھایا اور یہ جا وہ جا۔

تر لو چن بڑبڑایا کیسی ذلیل حرکت ہے، حرامزادے کی۔

موذیل نے اپنی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا کوئی ذلیل حرکت نہیں۔۔۔۔سب چلتا ہے۔۔۔۔آؤ۔

اور تیز تیز چلنے لگی۔۔۔۔ترلوچن نے بھی قدم تیز کر دئیے۔

یہ گلی طے کرنے کے بعد دونوں اس محلے میں پہنچ گئے، جہاں کرپال کور رہتی تھی، موذیل نے پوچھا کس گلی میں جانا ہے؟

تر لو چن نے آہستہ سے کہا، تیسری گلی میں۔۔۔۔نکڑ والی بلڈنگ۔

موذیل نے اس طرف چلنا شروع کر دیا، یہ راستہ بالکل خاموش تھا، آس پاس اتنی گنجان آبادی تھی مگر کسی بچے کی رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔

جب وہ اس گلی کے قریب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دی۔۔۔۔ایک آدمی بڑی تیزی سے اس کنارے والی بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والی بلڈنگ میں گھس گیا، اس بلڈنگ سے تھوڑی دیر بعد تین آدمی نکلے، فٹ پاتھ پر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور بڑی پھرتی سے دوسری بلڈنگ میں چلے گئے، موذیل ٹھٹک گئی، اس نے ترلوچن کو اشارہ کیا کہ اندھیرے میں ہو جائے، پھر اس نے ہولے سے کہا ترلوچن ڈئیر۔۔۔۔یہ پگڑی اتار دو۔

ترلوچن نے جواب دیا میں یہ کسی صورت بھی نہیں اتارسکتا۔

موذیل جھنجلا گئی، تمہاری مرضی۔۔۔لیکن تم دیکھتے نہیں سامنے کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔ سامنے جو کچھ ہو رہا ہے تھا دونوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔۔۔صاف گڑ بڑ ہو رہی تھی اور بڑی پراسرار قسم کی، دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے ہیں۔

بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی، ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال سی چیز ٹپک رہی تھی، موذیل اپنے ہونٹ کاٹنے لگی غالباً وہ سوچ رہی تھی، جب یہ دونوں آدمی گلی کے دوسرے سرے پر پہنچ کر غائب ہو گئے، تو اس نے ترلوچن سے کہا۔

دیکھو ایسا کرو۔۔۔۔۔میں بھاگ کر نکڑ والی بلڈنگ میں جاتی ہوں۔۔۔۔تم میرے پیچھے آنا۔۔۔۔۔بڑی تیزی سے جیسے تم میرا پیچھا کر رہے ہو۔۔۔سمجھے۔۔۔مگر یہ اب ایک دم جلدی جلدی میں ہو۔

موذیل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار کیا اور نکڑ والی بلڈنگ کی طرف کھڑاؤں کھٹکھٹاتی بڑی تیزی سے بھاگی،ترلوچن بھی اس کے پیچھے دوڑا، چند لمحوں میں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔۔۔۔۔ سیڑھیوں کے پاس۔۔۔ ترلوچن ہانپ رہا تھا، مگر موذیل بالکل ٹھیک ٹھاک تھی، اس نے ترلوچن سے پوچھا کون سا مالا؟

ترلوچن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری، دوسرا۔

چلو۔

یہ کہہ کر کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھنے لگی، تو تر لو چن اس کے پیچھے ہولیا، زینوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے، ان کو دیکھ دیکھ کر اس کا خون خشک ہو رہا تھا۔ دوسرے مالے پر پہنچے تو کوری ڈور میں کچھ دور جا کر ترلوچن نے ہولے سے ایک دروازے پر دستک دی، موذیل دو سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہی۔

ترلوچن نے ایک بار پھر دستک دی اور دروازے کے ساتھ منہ لگا کر آواز دی۔

مہنگا سنگھ جی۔۔۔۔۔۔مہنگا سنگھ جی؟

اندر سے مہین آواز آئی۔کون؟

ترلوچن

دروازہ دھیرے سے کھلا۔۔۔۔ترلوچن نے موذیل کو اشارہ کیا، وہ لپک کر آئی دونوں اندر داخل ہوئے۔۔۔۔موذیل نے اپنی بغل میں ایک پتلی لڑکی کو دیکھا۔۔۔۔جو بے حد سہمی ہوئی تھی، موذیل نے اس کو ایک لحظے کیلئے غور سے دیکھا، پتلے پتلے نقش تھے، ناک بہت ہی پیاری تھی مگر زکام میں مبتلا، موذیل نے اس کو اپنے چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کرتے کا دامن اٹھا کر اس کی ناک پونچھی۔

ترلوچن سرخ ہو گیا۔

موذیل نے کرپال کور سے بڑے پیار کے ساتھ کہا، ڈرو نہیں ترلوچن تمہیں لینے آیا ہے۔

کرپال کور نے ترلوچن کی طرف اپنی سہمی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور موذیل سے الگ ہوئی۔

ترلوچن نے اس سے کہا سردار صاحب سے کہو کہ جلدی تیار ہو جائیں۔۔۔۔اور ماتا جی سے بھی۔۔۔۔لیکن جلدی۔

اتنے میں اوپر کی منزل پر بلدن آوازیں آنے گلیں جیسے کوئی چیخ رہا ہو اور دھینگا مشتی ہو رہی ہو۔

کرپال کور کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی، اسے پکڑ لیا انہوں نے۔

ترلوچن نے پوچھا کسے؟

کرپال کور نے جواب دینے والی تھی کہ موذیل نے اس کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک کونے میں لے گئی، پکڑ لیا تو اچھا ہوا۔۔۔۔۔۔تم یہ کپڑے اتارو۔

کرپال کور کو ابھی سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موذیل نے آنا فانا اس کی قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی، کرپال کور نے اپنی بانہوں میں اپنے ننگے جسم کو چھپا لیا اور وحشت زدہ ہو گئی، ترلوچن نے منہ دوسری طرف موڑ لیا، موزیل نے اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتہ اتار اور اس کو پہنا دیا، خود وہ ننگ دھڑنگ تھی، جلدی جلدی اس نے کرپال کور کا آزار بند ڈھیلا کی اور اس کی شلوار اتار کر، ترلوچن سے کہنے لگی، جاؤ اسے لے جاؤ،لیکن ٹھہرو۔

یہ کہہ کر اس نے کرپال کور کے بال کھول دئیے، اس سے کہا جاؤ۔۔جلدی۔۔نکل جاؤ۔۔ ترلوچن نے اس سے کہا آؤ مگر فورا ہی رک گیا، پلٹ کر اس نے موذیل کی طرف دیکھا جو دھوئے دیدے کی طرح ننگی کھڑی تھی اس کی بانہوں پر مہین مہین بال سردی کے باعث جاگے ہوئے تھے۔

تم جاتے کیوں نہیں ہو؟ موذیل کے لہجے میں چڑا چڑا پن تھا۔

ترلوچن نے آہستہ سے کہا، اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔

جہنم میں جائیں وہ۔۔۔۔۔تم اسے لے جاؤ۔

اور تم۔

میں آ جاؤں گی۔

ایک دم اوپر کی منزل سے کئی آدمی دھڑا دھڑا دھڑ نیچے اترنے لگے، دروازے کے پاس آ کر انہوں نے کوٹنا شروع کر دیا، جیسے وہ اسے توڑ ہی ڈالیں گے۔

کرپال کور کی اندھی ماں اور مفلوج باپ دوسرے کمرے میں پڑے کراھ رہے ہیں۔

کرپال کور نے سوچااور بالوں کو خفیف جھٹکا دیا اور اس نے ترلوچن سے کہا سنو اب صرف ایک ہی ترکیب سمجھ میں آتی ہے۔۔۔میں دروازہ کھولتی ہو۔۔۔۔

کرپال کور کے خشک حلق سے چیخ نکلتی دب گئی، دروازہ۔

موذیل ترلوچن سے مخاطب رہی میں دروازہ کھول کر باہر نکلتی ہوں۔۔۔تم میرے پیچھے بھاگنا۔۔۔۔میں اوپر چڑھ جاؤ گی۔۔۔تم بھی اوپر چلے جانا۔۔۔۔یہ لوگ دروازہ توڑ رہے ہیں، سب کچھ بھول جائیں گے اور ہمارے پیچھے چلے آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترلوچن نے پوچھا پھر؟

موذیل نے کہا یہ تمہاری۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔۔موقع پا کر نکل جائے۔۔۔اس لباس میں اسے کچھ نہ کہے گا۔

ترلوچن نے جلدی جلدی کرپال کور کو سار بات سمجھا دی، موذیل زور سے چلائی دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گری، سب بوکھلا گئے اٹھ کر اس نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا، ترلوچن اس کے پیچھے بھاگا سب ایک طرف ہٹ گئے۔

موذیل اندھا دھند سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔کھڑاؤں اس کے پیروں میں تھی۔۔۔۔۔۔وہ لوگ جو دروازے کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے، سنبھل کر ان کے تعاقب میں دوڑے، موذیل کا پاؤ ں پھسلا۔۔۔۔۔۔۔اوپر کے زینے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکی کہ ہر پتھریلے زینے کے ساتھ ٹکراتی لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتی وہ نیچے آ رہی۔۔۔۔۔۔ پتھریلے فرش پر۔

ترلوچن ایک دم نیچے اترا، جھک کر اس نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا، منہ سے خون بہہ رہا تھا، کانوں کے رستے بھی خون نکل رہا تھا، وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے، ارد گرد جمع ہو گئے۔۔۔۔۔کسی نے بھی نہ پوچھا کیا ہوا ہے، سب خاموش تھے اور موذیل کے ننگے اور گورے جسم کو دیکھ رہے تھے، جس پر جا بجا خراشیں پڑی تھیں۔

ترلوچن نے اس کا بازو ہلایا اور آواز دی، موذیل۔۔۔۔موذیل۔

موذیل نے اپنی بڑی بڑی یہودی آنکھیں کھولیں، جو لال بہوٹی ہو رہی تھیں اور مسکرائی۔ ترلوچن نے اپنی پگڑی اتار اور کھول کر اس کا ننگا جسم ڈھک دیا،موذیل پھر مسکرائی اور آنکھ مارکر اس نے ترلوچن سے منہ میں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا کہ جاؤ دیکھو، میرا انڈر وئیر وہاں ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔

ترلوچن اس کا مطلب سمجھ گیا مگر اس نے اٹھانا نہ چاہا، اس پر موذیل نے غصے میں کہا۔۔۔۔۔۔تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔۔۔جاؤ دیکھ کر آؤ۔

ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف چلا گیا، موذیل نے اپنی دھندلی آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کی طرف دیکھا اور کہا یہ میاں بھائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن بہت دادا قسم کا۔۔۔۔میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔

ترلوچن واپس آگیا، اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں موذیل کو بتا دیا کہ کرپال کور جاچکی ہے۔۔۔۔۔۔موذیل نے اطمینان کا سانس لیا۔۔۔۔۔۔لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منہ سے بہہ نکلا۔۔۔۔اوہ ڈیم اٹ۔۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی کلائی سے اپنا منہ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی، آل رائٹ ڈارلنگ۔۔۔۔۔بائی بائی۔

ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا، مگر لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔

موذیل نے اپنے بدن سے ترلوچن کی پگڑی ہٹا لی۔لے جاؤ اس کو۔۔۔۔۔۔اپنے اس مذہب کو، اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔