جاؤ، حنیف جاؤ

چودھری غلام عباس کی تازہ ترین تقریر پر تبادلہ خیالات ہو رہا تھا۔ ٹی ہاؤس کی فضا وہاں کی چائے کی طرح گرم تھی۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ ہم کشمیر لے کر رہیں گے اور یہ کہ ڈوگرہ راج کا فی الفور خاتمہ ہو جانا چاہیے۔

سب کے سب مجاہد تھے۔ لڑائی کے فن سے نابلد تھے، مگر میدان جنگ میں جانے کے لیے سر بکف تھے۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ایک دم ہلہ بول دیا جائے تو یوں چٹکیوں میں کشمیر سر ہو جائے گا۔ پھر ڈاکٹر گراہموں کی کوئی ضرورت نہ رہے گی، نہ یو این او میں ہر چھٹے مہینے گڑگڑانا پڑے گا۔

ان مجاہدوں میں میں بھی تھا۔ مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی طرح میں تھی کشمیری ہوں۔ اس لیے کشمیر میری زبردست کمزوری ہے۔ چنانچہ میں نے باقی مجاہدوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اور آخر میں طے یہ ہوا کہ جب لڑائی شروع ہو تو ہم سب اس میں شامل ہوں اور صفِ اول میں نظر آئیں۔

حنیف نے یوں تو کافی گرم جوشی کا اظہار کیا، مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ افسردہ سا ہے۔ میں نے بہت سوچا مگر مجھے اس افسردگی کی کوئی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔

چائے پی کر باقی سب چلے گئے، لیکن میں اور حنیف بیٹھے رہے۔ اب ٹی ہاؤس قریب قریب خالی تھا۔ ہم سے بہت دور ایک کونے میں دو لڑکے ناشتہ کر رہے تھے۔

حنیف کو میں ایک عرصے سے جانتا تھا۔ مجھ سے قریب قریب دس برس چھوٹا تھا۔ بی-اے پاس کرنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ اردو کا ایم-اے کروں یا انگریزی کا۔ کبھی کبھی اس کے دماغ پر یہ سنک بھی سوار ہو جاتی کہ ہٹاؤ پڑھائی کو، سیاحی کرنی چاہیے۔

میں نے حنیف کو غور سے دیکھا۔ وہ ایش ٹرے میں سے ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اٹھا اٹھا کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، وہ افسردہ تھا۔ اس وقت بھی اس کے چہرے پر وہی افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا موقع اچھا ہے، اس سے دریافت کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، "تم خاموش کیوں ہو؟"

حنیف نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا۔ ماچس کی تیلی کے ٹکڑے کر کے ایک طرف پھینکے اور جواب دیا، "ایسے ہی۔"

میں نے سگریٹ سلگایا، "ایسے ہی، تو ٹھیک جواب نہیں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے ۔۔۔ تم غالباً کسی بیتے ہوئے واقعے کے متعلق سوچ رہے ہو۔"

حنیف نے اثبات میں سر ہلایا، "ہاں۔"

"اور وہ واقعہ کشمیر کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے۔"

حنیف چونکا، "اپ نے کیسے جانا؟"

میں نے مسکرا کر کہا، "شرلک ہومز ہوں میں بھی ۔۔۔ ارے بھئی کشمیر کی باتیں جو ہو رہی تھیں ۔۔۔ جب تم نے مال لیا کہ سوچ رہے ہو ۔۔۔ کسی بیتے ہوئے واقعے کے متعلق سوچ رہے ہو تو میں فوراً اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ اس بیٹے ہوئے واقعے کا تعلق کشمیر کے سوا اور کسی سرزمین سے نہیں ہو سکتا ۔۔۔ کیا وہاں کوئی رومان لڑا تھا تمہارا؟"

"رومان ۔۔۔ معلوم نہیں ۔۔۔ جانے کیا تھا۔ بہرحال، کچھ نہ کچھ ہوا ضرور تھا۔ جس کی یاد اب تک باقی ہے۔"

میری خواہش تھی کہ میں حنیف سے اس کی داستان سنوں۔ "اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ وہ کچھ نہ کچھ کیا تھا؟"

حنیف نے مجھ سے سگریٹ مانگ کر سلگایا اور کہا، "منٹو صاحب، کوئی خاص دلچسپ نہیں ۔۔۔ لیکن اگر آپ خاموشی سے سنتے رہیں گے اور مجھے ٹوکیں گے نہیں تو میں آج سے تین برس پہلے جو کچھ ہوا، آپ کو من و عن بتا دوں گا ۔۔۔ میں افسانہ گو نہیں ۔۔۔ پھر بھی میں کوشش کروں گا۔"

میں نے وعدہ کیا کہ میں اس کے تسلسل کو نہیں توڑوں گا۔ اصل میں وہ اب دل و دماغ کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی داستان بیان کرنا چاہتا تھا۔

حنیف نے تھوڑے توقف کے بعد کہنا شروع کیا، "منٹو صاحب، آج سے دو برس پہلے کی بات ہے جب کہ بٹوارہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ میری طبیعت اداس تھی۔ معلوم نہیں کیوں ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ ہر کنوارہ نوجوان اس قسم کے موسم میں ضرور اداسی محسوس کرتا ہے۔ خیر، میں نے ایک روز کشمیر جانے کا ارادہ کر لیا۔ مختصر سا سامان لیا اور لاریوں کے اڈے پر جا پہنچا۔ ٹکٹ لیا۔ لاری جب کد پہنچی تو میرا ارادہ بدل گیا۔ میں نے سوچا سری نگر میں کیا دھرا ہے، بیسیوں مرتبہ دیکھ چکا ہوں ۔۔۔ اگلے اسٹیشن بٹوت پر اتر جاؤں گا۔ سنا ہے بڑا صحت افزا مقام ہے۔ تپ دق کے مریض یہیں آتے ہیں اور صحت یاب ہو کر جاتے ہیں۔ چنانچہ میں بٹوت اتر گیا اور وہاں ایک ہوٹل میں ٹھہر گیا۔ ہوٹل بس ایسے ہی واجبی سا تھا۔ بہرحال ٹھیک تھا۔ مجھے بٹوت پسند آ گیا۔ صبح چڑھائی کی طرف سیر کو نکل جاتا، واپس آ کر خالص مکھن اور ڈبل روٹی کا ناشتہ کرتا اور لیٹ کر کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہو جاتا۔

دن اس صحت افزا فضا میں بڑی اچھی طرح گزر رہے تھے۔ آس پاس جتنے دوکاندار تھے سب میرے دوست بن گئے تھے، خاص طور پر سردار لہنا سنگھ جو درزیوں کا کام کرتا تھا۔ میں اس کی دکان پر گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔ عشق و محبت کے افسانے سننے اور سنانے کا اسے قریب قریب خبط تھا۔ مشین چلتی رہتی تھی اور وہ یا تو کوئی داستان عشق سنتا رہتا تھا یا سناتا رہتا تھا۔

اس کو بٹوت سے متعلق ہر چیز کا علم تھا۔ کون کس سے عشق لڑا رہا ہے، کس کس کی آپس میں‌کھٹ پٹ ہوئی۔ کون کون سے لونڈیا پر پرزے نکال رہی ہے۔ ایسی تمام باتیں اس کی جیب میں ٹھنسی رہتی تھیں۔

شام کو میں اور وہ اترائی کی طرف سیر کو جاتے تھے اور بانہال کے درے تک پہنچ کر پھر آہستہ آہستہ واپس چلے آتے تھے۔ ہوٹل سے اترائی کی طرف پہلے موڑ پر سڑک کے داہنے ہاتھ مٹی کے بنے ہوئے کوارٹر تھے۔ میں نے ایک دن سردار جی سے پوچھا کہ یہ کوارٹر کیا رہائش کے لیے ہیں؟ یہ میں نے اس لیے دریافت کیا تھا کہ مجھے وہ پسند آ گئے تھے۔ سردار جی نے مجھے بتایا کہ ہاں، رہائش ہی کے لیے ہیں۔ آج کل اس میں سرگودھے کے ایک ریلوے بابو ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کی دھرم پتنی بیمار ہے۔ میں سمجھ گیا کہ دق ہو گی۔ خدا معلوم میں دق سے اتنا کیوں ڈرتا ہوں۔ اس دن کے بعد جب کبھی میں ادھر سے گزرا، ناک اور منہ پر رومال رکھ کے گزرا۔ میں داستان کو طویل نہیں کرنا چاہتا۔

قصہ مختصر یہ کہ ریلوے بابو، جن کا نام کندن لال تھا، سے میری دوستی ہو گئی اور میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی بیمار بیوی کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اس فرض کو محض ایک فرض سمجھ کر ادا کر رہا ہے۔ وہ اس کے پاس بہت کم جاتا تھا اور دوسرے کوارٹر میں رہتا تھا جس میں وہ دن میں تین مرتبہ فنائل چھڑکتا تھا۔ مریضہ کی دیکھ بھال اس کی چھوٹی بہن سمتری کرتی تھی۔ دن رات یہ لڑکی جس کی عمر بمشکل چودہ برس کی ہو گی، اپنی بہن کی خدمت میں مصروف رہتی تھی۔

میں نے سمتری کو پہلی مرتبہ مگو نالے پر دیکھا۔ میلے کپڑوں کا بڑا انبار پاس رکھے وہ نالے کے پانی سے غالباً شلوار دھو رہی تھی کہ میں پاس سے گزرا۔ آہٹ سن کر وہ چونکی۔ مجھے دیکھ کر اس نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کہا۔ میں نے اس کا جواب دیا اور اس سے پوچھا، تم مجھے جانتی ہو؟ سمتری نے باریک آواز میں کہا، جی ہاں۔ آپ بابو جی کے دوست ہیں۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ مظلومیت ہے جو سکڑ کر سمتری کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اس سے باتیں کروں اور کچھ کپڑے دھو ڈالوں تاکہ اس کچھ بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مگر پہلی ملاقات میں ایسی بے تکلفی نامناسب تھی۔

دوسری ملاقات بھی اسی نالے پر ہوئی۔ وہ کپڑوں پر صابن لگا رہی تھی تو میں نے اس کو نمستے کہا اور چھوٹی چھوٹی بٹیوں کے بستر پر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ وہ کسی قدر گھبرائی لیکن جب باتیں شروع ہوئیں تو اس کی یہ گھبراہٹ دور ہو گئی اور وہ اتنی بے تکلف ہو گئی کہ اس نے مجھے اپنے گھر کے تمام معاملات بتانے شروع کر دیئے۔

بابو جی یعنی کندن لال سے اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئے پانچ برس ہو چلے تھے۔ پہلے برس تو بابو جی کا سلوک اپنی بیوی سے ٹھیک رہا، لیکن جب رشوت کے الزام میں وہ نوکری سے معطل ہوا تو اس نے اپنی بیوی کا زیور بیچنا چاہا۔ زیور بیچ کر وہ جوا کھیلنا چاہتا تھا کہ دُگنے روپے ہو جائیں گے۔ بیوی نہ مانی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس نے اس کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ سارا دن ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھتا اور کھانے کو کچھ نہ دیتا۔ اس نے مہینوں ایسا کیا۔ آخر ایک دن عاجز آ کر اس کی بیوی نے اپنے زیور اس کے حوالے کر دیئے۔ لیکن زیور لے کر وہ ایسا غائب ہو کہ چھ مہینے تک اس کی شکل نظر نہ آئی۔ اس دوران میں سمتری کی بہن فاقہ کشی کرتی رہی۔ وہ اگر چاہتی تو اپنے میکے جا سکتی تھی۔ اس کا باپ مالدار تھا اور اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ مگر اس نے مناسب نہ سمجھا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس کو دق ہو گئی۔ کندن لال چھ مہینے کے بعد اچانک گھر آیا تو اس کی بیوی بستر پر پڑی تھی۔ کندن لال اب نوکری پر بحال ہو چکا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اتنی دیر کہاں رہا تو وہ گول کر گیا۔

سمتری کی بہن نے اس سے زیوروں کے بارے میں نہیں پوچھا۔ اس کا پتی گھر واپس آ گیا تھا۔ وہ بہت خوش تھی کہ بھگوان نے اس کی سن لی۔ اس کی صحت کسی قدر بہتر ہو گئی مگر "ان کے آنے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق"والا معاملہ تھا۔ ایک مہینے کے بعد اس کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ اس اثناء میں سمتری کے ماں باپ کو پتہ چل گیا۔ وہ فوراً وہاں پہنچے اور کندن لال کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی کو فوراً کسی پہاڑ پر لے جائے۔ خرچ وغیرہ کا ذمہ انہوں نے کہا، ہمارا ہے۔ کندن لال نے کہا چلو سیر ہی سہی، سمتری کو دل بھلاوے کے لیے ساتھ لیا اور بٹوت پہنچ گیا۔

یہاں وہ اپنی بیوی کی قطعاً دیکھ بھال نہیں کرتا تھا۔ سارا دن باہر تاش کھیلتا رہتا۔ سمتری پرہیزی کھانا پکاتی تھی۔ اس لیے وہ صبح شام ہوٹل سے کھانا کھاتا۔ ہر مہینے سسرال لکھ دیتا کہ خرچ زیادہ ہو رہا ہے، چنانچہ وہاں سے رقم میں اضافہ کر دیا جاتا۔

میں داستان لمبی نہیں کرنا چاہتا۔ سمتری سے میری ملاقات اب ہر روز ہونے لگی۔

نالے پر وہ جگہ جہاں وہ کپڑے دھوتی تھی، بڑی ٹھنڈی تھی۔ نالے کا پانی بھی ٹھنڈا تھا۔ سیب کی درخت کی چھاؤں بہت پیاری تھی اور گول گول بٹیاں، جی چاہتا تھا کہ سارا دن انہیں اٹھا اٹھا کر نالے کے شفاف پانی میں پھینکتا رہوں۔ یہ تھوڑی سی بھونڈی شاعری میں نے اس لیے کی ہے کہ مجھے سمتری سے محبت ہو گئی تھی اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اس اسے قبول کر لیا ہے۔ چنانچہ ایک دن جذبات سے مغلوب ہو کر میں نے اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور آنکھیں بند کر لیں۔ سیب کے درخت میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور مگو نالے کا پانی گنگناتا ہوا بہہ رہا تھا۔

وہ خوبصورت تھی۔ گو دُبلی تھی مگر اس طور پر کہ غور کرنے پر آدمی اس نتیجے پر پہنچتا تھا کہ اسے دُبلی ہی ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ ذرا موٹی ہوتی تو اتنے نازک طور پر خوبصورت نہ ہوتی۔ اس کی آنکھیں غزالی تھیں۔ جن میں قدرتی سرمہ لگا رہتا تھا۔ ٹھمکا سا قد، گھنے سیاہ بال جو اس کی کمر تک آتے تھے۔ چھوٹا سا کنوارا جوبن۔ منٹو صاحب میں اس کی محبت میں سرتاپا غرق ہو گیا۔

ایک دن جب وہ اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی، میں نے وہ بات جو بڑے دنوں سے میرے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی، اس سے کہی کہ دیکھو سمتری، میں مسلمان ہوں، تم ہندو، بتاؤ انجام کیا ہو گا۔ میں کوئی اوباش نہیں کہ تمہیں خراب کر کے چلتا بنوں۔ میں تمہیں اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔ سمتری نے میرے گلے میں بانہیں ڈالیں اور بڑے مضبوط لہجے میں کہا، حنیف میں مسلمان ہو جاؤں گی۔

میرے سینے کا بوجھ اتر گیا۔ طے ہوا کہ جونہی اس کی بہن اچھی ہو گی، وہ میرے ساتھ چل دے گی۔ اس کی بہن کو کہاں اچھا ہونا تھا۔ کندن لال نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اس کی موت کا منتظر ہے۔ یہ بات ٹھیک بھی تھی۔ گو اس طرح سوچنا اور اس کا علاج کرنا کچھ مناسب نہیں تھا، بہرحال حقیقت سامنے تھی۔ کم بخت مرض ہی ایسا تھا کہ بچنا محال تھا۔

سمتری کی بہن کی طبیعت دن بدن گرتی گئی۔ کندن لال کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ چونکہ اب سسرال سے روپے زیادہ آنے لگے تھے اور خرچ کم ہو گیا تھا یا خود کم کر دیا گیا تھا، اس نے ڈاک بنگلے جا کر شراب پینا شروع کر دی اور سمتری سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔

منٹو صاحب، جب میں نے یہ سنا تو میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اتنی جرات نہیں تھی ورنہ میں بیچ سڑک کے اس کی مرمت جوتوں سے کرتا۔ میں نے سمتری کو اپنے سینے سے لگایا، اس کے آنسو پونچھے اور دوسری باتیں شروع کر دیں جو پیار محبت کی تھیں۔

ایک دن میں صبح سویرے سیر کو نکلا۔ جب ان کوارٹروں کے پاس پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ سمتری کی بہن اللہ کو پیاری ہو چکی ہے۔ چنانچہ میں نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کندن لال کو آواز دی۔ میرا خیال درست تھا۔ بے چاری نے رات گیارہ بجے آخری سانس لیا تھا۔

کندن لال نے مجھے سے کہا کہ میں تھوڑی دیر وہاں کھڑا رہوں تاکہ وہ کریا کرم کے لیے بندوبست کر آئے۔ وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے سمتری کا خیال آیا۔ وہ کہاں تھی۔ جس کمرے میں اس کی بہن کی لاش تھی، بالکل خاموش تھا۔ میں ساتھ والے کوارٹر کی طرف بڑھا۔ اندر جھانک کر دیکھا، سمتری چارپائی پر گٹھری سی بنی لیٹی تھی۔ میں اندر چلا گیا۔ اس کا کندھا ہلا کر میں نے کہا، سمتری، سمتری۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی شلوار بڑے بڑے دھبوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے پھر اس کا کندھا ہلایا مگر وہ خاموش رہی۔ میں نے بڑے پیار سے پوچھا، کیا بات ہے سمتری؟ سمتری نے رونا شروع کر دیا۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ کیا بات ہے سمتری۔ سمتری سسکیوں بھری آواز میں بولی۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ میں نے کہا کیوں۔ افسوس ہے کہ تمہاری بہن کا انتقال ہو گیا، مگر تم تو اپنی جان ہلکان نہ کرو۔ اس نے اٹک اٹک کر کہا، اس کی آواز نہیں نکلتی تھی، وہ مر گئی ہے، پر میں اس کا غم نہیں کر سکتی۔ میں خود مر چکی ہوں۔ میں اس کا مطلب نہ سمجھا۔ تم کیوں مرو۔ تمہیں تو میرا جیون ساتھی بننا ہے۔ یہ سن کر وہ دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ جاؤ حنیف جاؤ۔ میں اب کسی کام کی نہیں رہی۔ کل رات، کل رات باجو جی نے میرا خاتمہ کر دیا۔ میں چیخی، ادھر دوسرے کوارٹر سے جیجی چیخی اور مر گئی۔ وہ سمجھ گئی تھی۔ ہائے، کاش میں نہ چیخی ہوتی۔ وہ مجھے کیا بچا سکتی تھی۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی، دیوانہ وار میرا بازو پکڑا اور گھسیٹتی باہر لے گئی۔ پھر دوڑ کر کوارٹر میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ حرامزادہ کندن لال آیا۔ اس کے ساتھ چار پانچ آدمی تھے۔ خدا کی قسم اکیلا ہوتا تو میں پتھر مار مار کر اسے جہنم واصل کر دیتا۔ بس یہ ہے میری کہانی۔ سمتری کی کہانی جس کے یہ الفاظ ہر وقت میرے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ کس قدر دکھ ہے ان تین لفظوں میں۔

حنیف کے آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا، "جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا تھا۔ تم نے سمتری کو قبول کیوں نہ کیا؟"

حنیف نے آنکھیں جھکا لیں ۔۔۔ خود کو ایک موٹی گالی دے کر اس نے کہا، "کمزوری ۔۔۔ مرد عموماً ایسے معاملوں میں بڑا کمزور ہوتا ہے ۔۔۔ لعنت ہے اس پر ۔۔۔"