کچھ عرصے سے اقلیتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار ہو رہی تھیں۔ ان کو خوابِ گراں سے جگانے والی اکثریتیں جو ایک مدت سے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتی رہی تھیں۔ اس بیداری کی لہر نے کئی انجمنیں پیدا کر دیں تھیں۔ ہوٹل کے بیروں کی انجمن، حجاموں کی انجمن، کلرکوں کی انجمن، اخبار والوں میں کام کرنے والے صحافیوں کی انجمن، اقلیت اپنی انجمن یا تو بنا چکی تھی یا بنا رہی تھی تاکہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے۔

ایسی ہر انجمن کے قیام پر اخباروں میں تبصرے ہوتے تھے۔ اکثریت کے حمایتی ان کی مخالفت کرتے تھے اور اقلیت کے طرفدار موافقت۔ غرض کہ کچھ عرصے سے ایک اچھا خاصا ہنگامہ برپا تھا جس سے رونق لگی رہتی تھی۔ مگر ایک روز اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ملک کے دس نمبریے غنڈوں نے اپنی انجمن قائم کی ہے تو اکثریتیں اور اقلیتیں دونوں سنسنی زدہ ہو گئیں۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے خیال کیا کہ بے پر کی اڑا دی ہے کسی نے، پر جب اس انجمن نے اپنے اغراض و مقاصد شائع کیے اور ایک با قاعدہ منشور ترتیب دیا تو پتا چلا کہ یہ کوئی مذاق نہیں۔ غنڈے اور بدمعاش واقعی خود کو اس انجمن کے سائے تلے منظم کرنے کا پورا پورا تہیہ کر چکے ہیں۔

اس انجمن کی ایک دو میٹنگیں ہو چکی تھیں۔ ان کی روداد اخباروں میں شائع ہو چکی تھی۔ لوگ پڑھتے اور دم بخود رہ جاتے۔ بعض کہتے کہ بس اب قیامت آنے میں زیادہ دیر باقی نہیں۔

اغراض و مقاصد کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھی۔ جس میں‌ یہ کہا گیا تھا کہ غنڈوں اور بدمعاشوں کی یہ انجمن سب سے پہلے تو اس بات پر صدائے احتجاج بلند کرے گی کہ معاشرے میں ان کو نفرت و حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح بلکہ ان کے مقابلے میں کچھ زیادہ امن پسند شہری ہیں۔ ان کو غنڈے اور بدمعاش نہ کہا جائے، اس لیے کہ اس سے ان کی تذلیل و توہین ہوتی ہے۔ وہ خود اپنے لیے کوئی مناسب اور معزز نام تجویز کر لیتے مگر اس خیال سے کہ اپنے منہ میاں مٹھو کی کہاوت ان پر چسپاں نہ ہو، وہ اس کا فیصلہ عوام و خواص پر چھوڑتے ہیں۔ چوری چکاری ڈکیتی اور رہزنی، جیب تراشی اور جعل سازی، پتے بازی اور بلیک مارکیٹنگ وغیرہ افعال قبیحہ کے بجائے فنون لطیفہ میں شمار ہونے چاہیں۔ ان لطیف فنون کے ساتھ اب تک جو بُرا سلوک روا رکھا گیا ہے، اس کی مکمل تلافی اس یونین کا نصب العین ہے۔

ایسے ہی کئی اور اغراض و مقاصد تھے جو سننے اور پڑھنے والوں کو بڑے عجیب و غریب معلوم ہوتے تھے۔ بظاہر ایسا تھا کہ چند بے فکرے ظریفوں نے لوگوں کی تفریح کے لیے یہ سب باتیں گھڑی ہیں۔ یہ چٹکلہ ہی تو معلوم ہوتا تھا کہ یونین اپنے ممبروں کی قانونی حفاظت کا ذمہ لے گی اور ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار اور خوشگوار فضا پیدا کرنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرے گی۔ وہ حکام وقت پر زور دے گی کہ یونین کے ہر رکن پر اس کے مقام اور رتبے کے لحاظ سے مقدمہ چلایا جائے اور سزا دیتے وقت بھی اس کی پیشِ نظر رکھا جائے۔ حکومت لوگوں کو اپنے گھروں میں چوری کا برقی الارم نہ لگانے دے۔ اس لیے کہ بعض اوقات یہ ہلاکت ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح سیاسی قیدیوں کو جیل میں اے اور بی کلاس کی مراعات دی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس یونین کے ممبروں کو دی جائیں۔ یونین اس بات کا ذمہ لیتی تھی کہ وہ اپنے ممبروں کو ضعیف اور ناکارہ یا کسی حادثے کا شکار ہو جانے کی صورت میں ہر ماہ گزارے کے لیے معقول رقم دے گی۔ جو ممبر کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے باہر کے ممالک میں جانا چاہے گا اسے وظیفہ دے وغیرہ وغیرہ۔

ظاہر ہے کہ اخباروں میں اس یونین کے قیام پر خوب تبصرہ بازی ہوئی۔ قریب قریب سب اس کے خلاف تھے۔ بعض رجعت پسند کہتے تھے کہ یہ کمیونزم کی انتہائی شکل ہے، اور اس کے بانیوں کے ڈانڈے کرملین سے ملاتے تھے۔ حکومت سے چنانچہ بار بار درخواست کی جاتی کہ وہ اس فتنے کو فوراّ کچل دے، کیونکہ اگر اس کو ذرا بھی پنپنے کا موقع دیا گیا تو معاشرے میں ایسا زہر پھیلے گا کہ اس کا تریاق ملنا مشکل ہو جائے گا۔

خیال تھا کہ ترقی پسند اس یونین کی طرف داری کریں گے کہ اس میں ایک جدت تھی اور پرانی قدروں سے ہٹ کر اس نے اپنے لیے ایک بالکل نیا راستہ تلاش کیا تھا۔ اور پھر یہ کہ رجعت پسند اسے کمیونسٹوں کی اختراع سمجھتے تھے۔ مگر حیرت ہے کہ اقلیتوں کے یہ سب سے بڑے طرفدار پہلے تو اس معاملے میں خاموش رہے اور بعد میں دوسروں کے ہم نوا ہو گئے اور اس یونین کی بیخ کنی پر زور دینے لگے۔

اخباروں میں ہنگامہ برپا ہوا تو ملک کے گوشے گوشے میں اس یونین کے قیام کے خلاف جلسے ہونے لگے۔ قریب قریب ہر پارٹی کے نامی و گرامی لیڈروں نے پلیٹ فارم پر آ کر اس ننگ تہذیب و تمدن جماعت کو ملعون قرار دیا اور کہا یہی وقت ہے جب تمام لوگوں کو آپس کے جھگڑے چھوڑ کر اس فتنہ عظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد، نظم اور یقین محکم کو اپنا موڑ بنا کر ڈٹ جانا چاہیے۔

اس سارے ہنگامے کا جواب یونین کی طرف سے ایک پوسٹر کے ذریعے دیا گیا جس میں بڑے اختصار کے ساتھ یہ کہا گیا کہ پریس اکثریت کے ہاتھ میں ہے، قانون اس کی پشت ہے۔ مگر انجمن کے حوصلے اور ارادے پست نہیں ہوئے۔ وہ کوشش کر رہی ہے کہ بہت سی رقم دے کر کچھ اخبار خرید لے اور ان کو اپنے حق میں کر لے۔

یہ پوسٹر ملک کے در و دیوار پر نمودار ہوا تو فوراّ ہی بعد کئی شہروں سے بڑی بڑی چوریوں اور ڈکیتیوں کی اطلاعیں وصول ہوئیں۔ اور اس کے چند روز بعد جب ایکا ایکی دو اخباروں نے دبی زبان میں غنڈوں اور بدکاروں کی یونین کے اغراض و مقاصد میں‌ اصلاحی پہلو کریدنا شروع کیا تو لوگ سمجھ گئے کہ پس پردہ کیا ہوا ہے۔

پہلے ان دو اخباروں کے اشاعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ نہایت ہی گھٹیا کاغذ پر چھپتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسی کایا کلپ ہوئی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ سب سے اچھا ایڈیٹوریل اسٹاف ان دو پرچوں کے پاس تھا۔ دفتر میں ایک کی بجائے دو دو ٹیلی پرنٹر تھے۔ تنخواہ مقررہ وقت سے پہلے مل جاتی تھی۔ بونس الگ ملتا تھا۔ گھر کا الاؤنس، تانگے کا الاؤنس، سگرٹوں کا الاؤنس، چائے کا الاؤنس، مہنگائی کا الاؤنس۔ یہ سب الاؤنس مل کر تنخواہ سے دُگنے ہو جاتے تھے۔ جو دخت رز کے رسیا تھے، ان کو مفت پرمٹ ملتا تھا اور بہترین سکاچ وسکی کنٹرولڈ قیمت پر دستیاب ہوتی تھی۔ عملے کے ہر آدمی سے باقاعدہ کنٹریکٹ کیا گیا تھا جس میں مالک کی طرف سے یہ اقرار تھا کہ اگر اس کے گھر میں کبھی چوری ہوئی یا اس کی جیب کاٹ لی گئی تو اسے نقصان کے علاوہ ہرجانہ بھی ادا کیا جائے گا۔

ان دو اخباروں کی اشاعت دیکھتے دیکھتے ہزاروں تک پہنچ گئی۔ تعجب ہے کہ پہلے جب ان کی اشاعت کچھ بھی نہیں تھی تو یہ ہر روز کثیر الاشاعت ہونے کے بلند و بالا دعوے کرتے تھے، مگر جب ان کی کایا کلپ ہوئی تو اس معاملے میں بالکل خاموش ہو گئے۔ بیک وقت البتہ ان دونوں اخباروں نے کچھ عرصے کے بعد یہ اعلان چھاپا کہ ہماری اشاعت اس حد تک جا پہنچی ہے کہ اگر ہم نے اس سے تجاوز کیا تو تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی نقصان ہے۔

ان کے علمی و ادبی ایڈیشنوں میں عجیب و غریب موضوعات پر مضمون شائع ہوتے تھے۔ یہ چار پانچ تو بڑے ہی سنسنی خیز تھے :

1) بلیک مارکیٹنگ کے فوائد ۔۔۔ معاشیات کی روشنی میں 2) معاشرتی اور مجلسی دائرے میں قحبہ خانوں کی اہمیت 3) دروغ گو را حافظ باشد ۔۔۔ جدید سائنٹفک تحقیق 4) بچوں میں قتل و غارت گری کے فطری رجحانات 5) سادیت پر سیر حاصل تبصرہ 6) دنیا کے خوفناک ڈاکو اور تقدیس مذہب

اشتہار بھی کچھ عجیب و غریب نہیں تھے۔ ان میں مشتہر کا نام اور پتا نہیں ہوتا تھا۔ سرخیاں دے کر مطلب کی بات مختصر لفظوں میں ادا کر دی جاتی تھی۔ چند سرخیاں ملاحظہ ہوں :

چوری کے زیورات خریدنے سے پہلے ہمارا نشان ضرور دیکھ لیا کریں۔ جو کھرے مال کی ضمانت ہے۔

بلیک مارکیٹ میں صرف اسی فلم کے ٹکٹ فروخت کئے جاتے ہیں جو تفریح کا سامان پیش کرتا ہے۔

دودھ میں کن طریقوں سے ملاوٹ کی جاتی ہے۔ رسالہ "دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی "مطالعہ فرمائیے۔

ٹونے ٹوٹکے، گنڈے اور تعویذ، عمل ہمزاد اور تسخیر محبوب کے جنتر منتر سب جھوٹے ہیں۔ خود کو دھوکہ دینے کی بجائے معشوق کو دھوکہ دیجیئے۔

کھانے پینے کی صرف وہ چیزیں خریدیئے جن میں ضرر رساں چیزوں کی ملاوٹ نہ ہو۔

ایک الگ کالم میں "بلیک مارکیٹ کے آج کے بھاؤ "کے عنوان تلے ان تمام چیزوں کی کنٹرولڈ قیمت درج ہوتی تھی جو صرف بلیک مارکیٹ سے دستیاب ہوتی تھیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان قیمتوں میں ایک پائی کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ جو چوری چھپے چوری کا خاص نشان لگایا ہوا مال خریدتے تھے انہیں ارزاں قیمت پر سولہ آنے کھرا مال ملتا تھا۔

غنڈوں، چوروں اور بدکاروں کی انجمن جب آہستہ آہستہ نیک نامی حاصل کرنے لگی تو ارباب بست و کشاد کو تشویش دو چند ہو گئی۔ حکومت نے اپنی طرف سے خفیہ طور پر بہت کوشش کی کہ اس کے اڈے کا سراغ لگائے مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ یونین کی تمام سرگرمیاں زیرِ زمین یعنی انڈر گراؤنڈ تھیں۔ اونچی سوسائٹی کے چند اراکین کا خیال تھا کہ پولیس کے بعض بدقماش افسر اس یونین سے ملے ہوئے ہیں بلکہ اس کے باقاعدہ ممبر ہیں اور ہر ماہ اپنی ناجائز ذرائع سے پیدا کی ہوئی آمدن کا بیشتر حصہ بطور جزیے کے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کا نشتر معاشرے کے اس نہایت ہی مہلک پھوڑے تک نہیں پہنچ سکا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر یہ بات قابلِ غور تھی کہ عوام میں جو اس یونین کے قیام سے بے چینی پھیلی تھی، اب بالکل مفقود تھی۔ متوسط طبقہ اس کی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا۔ صرف اونچی سوسائٹی تھی جو دن بدن خائف ہوتی جا رہی تھی۔

اس یونین کے خلاف یوں تو آئے دن تقریریں ہوتی تھیں اور جگہ جگہ جلسے منعقد ہوتے تھے، مگر اب وہ پہلا سا جوش و خروش نہیں تھا۔ چنانچہ اس کو ازسرِ نو شدید بنانے کے لیے ٹاؤن ہال میں ایک بہت عظیم الشان جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ قریب قریب ہر شہر کی ہستیوں کو نمائندگی کے لیے مدعو کیا گیا۔ مقصد اس جلسے کا یہ تھا یہ اتفاق رائے سے غنڈوں، شُہدوں اور بدکاروں کی اس یونین کے خلاف مذمت کا ووٹ پاس کیا جائے اور عوام الناس کو ان خوفناک جراثیم سے کماحقہ آگاہ کیا جائے جو اس کے وجود سے معاشرتی و مجلسی دائرے میں پھیل چکے ہیں اور بڑی سرعت سے پھیل رہے ہیں۔

جلسے کی تیاری پر ہزاروں روپے خرچ کیے گئے۔ مجلس انتظامیہ اور مجلس استقبالیہ نے مندوبین کے آرام و آسائش کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کی۔ کئی اجلاس ہوئے اور بڑے کامیاب رہے۔ ان کی رپورٹ یونین کے پرچوں میں من و عن شائع ہوتی رہی۔ مذمت کے جتنے ووٹ پاس ہوئے، بلا تبصرہ چھپتے رہے۔ دونوں اخباروں میں ان کو نمایاں جگہ دی جاتی تھی۔

آخری اجلاس بہت اہم تھا۔ ملک کی تمام مکرم و محترم ہستیاں جمع تھیں۔ امرا و وزراء سب موجود تھے۔ حکومت کے اعلیٰ افسر بھی مدعو تھے۔ بڑے زور دار الفاظ میں تقریریں ہوئیں اور مذہبی، مجلسی، معاشی، جمالیاتی اور نفسیاتی، غرض کہ ہر ممکن نقطہ نظر سے غنڈوں اور بدمعاشوں کی تنظیم کے خلاف دلائل و براہین پیش کیے گئے اور ثابت کر دیا گیا کہ اس طبقہ اسفل کا وجود حیاتِ انسانی کے حق میں زہرِ قاتل ہے۔ مذمت کا آخری ریزولیشن جو بڑے با اثر الفاظ پر مشتمل تھا اتفاقِ رائے سے پاس ہوا تو ہال تالیوں کے شور سے گونج گونج اٹھا۔ جب تھوڑا سکون ہوا تو پچھلے بنچوں سے ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس نے صدر سے مخاطب ہو کر کہا، "صاحب صدر، اجازت ہو تو میں‌ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔"

سارے ہال کی نگاہیں اس آدمی پر جم گئیں۔ صدر نے بڑی تمکنت سے پوچھا، "میں پوچھ سکتا ہوں آپ کون ہیں؟"

اس شخص نے جو بڑے سادہ مگر خوش وضع کپڑوں میں ملبوس تھا، تعظیم کے ساتھ کہا "ملک و ملت کا ایک ادنیٰ ترین خادم،"اور کورنش بجا لایا۔

صدر نے چشمہ لگا کر اسے غور سے دیکھا اور پوچھا، "آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟"

اس معما نما مرد نے مسکرا کر کہا، "کہ ۔۔۔ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔"

اس پر سارے ہال میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ڈائس پر، خصوصاًّ سب کے سب معززین اور قائدین سوالیہ نشان بن کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

صدر نے اپنی تمکنت کو ذرا اور تمکین بنا کر پوچھا، "آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟"

"میں ابھی عرض کرتا ہوں۔"یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک بے داغ سفید رومال نکالا۔ اپنا منہ صاف کیا اور اسے واپس جیب میں رکھ کر بڑی پارلیمانی انداز میں گویا ہوا، "صاحب صدر اور معزز حضرات۔"ڈائس کے ایک طرف دیکھ کر وہ رک گیا، "معافی کا طلبگار ہوں ۔۔۔ محترمہ بیگم مرزبان خلاف معمول آج پچھلے صوفے پر تشریف فرما ہیں ۔۔۔

صاحب صدر، خاتون مکرم اور معزز حضرات۔"

بیگم مرزبان نے وینیٹی بیگ میں سے آئینہ نکال کر اپنا میک اپ دیکھا اور غور سے سننے لگی۔ باقی بھی ہمہ تن گوش تھے۔

اس شخص نے بڑی شائستگی سے کہنا شروع کیا:

حریف مطلب مشکل نہیں فسوں نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمر خضر دراز
 کچھ دیر رکھ کر وہ ایک ادا سے مسکرایا، "حضرت غالب ۔۔۔ اس اجلاس میں اور اس سے پہلے مجلسی دائرے کے ایک مفروضہ طبقہ اسفل کے بارے میں جو زہر افشانی کی گئی ہے، آپ کے اس خاکسار نے بڑے غور سے سنی ہے۔"

سارے ہال میں کھسر پھسر ہونے لگی۔ صدر کی ناک کے بانسے پر چشمہ پھسل گیا۔ "آپ ہیں کون؟"

سر کے ایک ہلکے سے خم کے ساتھ اس شخص نے جواب دیا، "ملک و ملت کا ایک ادنٰی خادم ۔۔۔ مجلسی دائرے کے مفروضہ طبقہ اسفل کی جماعت کا ایک رکن جسے اس کی نمائندگی کا فخر حاصل ہے۔"

ہال میں کسی نے زور سے "واہ" کہا اور تالی بجائی۔ چوروں، اچکوں اور غنڈوں کی یونین کے نمائندے نے سر کو پھر ہلکی سی جنبش دی اور کہنا شروع کیا، "کیا عرض کروں، کچھ کہا نہیں جاتا:

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں
 اس اجلاس میں اس جماعت کے خلاف جس کا یہ خاکسار نمائندہ ہے، اس قدر گالیاں دی گئی ہیں، اس قدر لعنت ملامت کی گئی ہے کہ صرف اتنا کہنے کو جی چاہتا ہے :

لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہیں

صاحب صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات۔"

بیگم مرزبان کی لپ اسٹک مسکرائی، بولنے والے نے آنکھیں اور سر جھکا کر تسلیم عرض کیا۔

"محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں میری جماعت کا کوئی ہمدرد موجود نہیں۔ آپ میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارا طرفدار ہو۔

دوست گر کوئی نہیں ہے جو کرے چارہ گری نہ سہی ایک تمنائے دوا ہے تو سہی"

ڈائس پر ایک اچکن پوش رئیس کلے میں پان دبا کر بولے، "مکرر "

صدر نے جب ان کی طرف سرزنش بھری نظروں سے دیکھا تو وہ خاموش ہو گئے۔

چوروں اور بدکاروں کی یونین کے نمائندے کے پتلے پتلے ہونٹوں پر شفاف مسکراہٹ نمودار ہوئی، "میں اپنی تقریر میں جو شعر بھی استعمال کروں گا ۔۔۔ حضرت غالب کا ہو گا۔"

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے کہا، "آپ تو بڑے لائق معلوم ہوتے ہیں۔"

بولنے والا کورنش بجا لایا اور مسکرا کر کہنے لگا،

سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
سارا ہال قہقہوں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ بیگم مرزبان نے اٹھ کر صدر کے کان میں کچھ کہا جس نے حاضرین کو چپ رہنے کا حکم دیا۔ خاموشی ہوئی تو چوروں اور لفنگوں کی یونین کے نمائندے نے پھر بولنا شروع کیا، "صاحب صدر، محترم مرزبان اور معزز حضرات،

اگرچہ ہے کس کس برائی سے شلے با ایں ہمہ ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
 لیکن سچ پوچھئے تو اس سے تسلی نہیں ہوتی۔ میں تاسف کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس طبقے کے ساتھ جس کی نمائندگی میری جماعت کرتی ہے، نہایت بے انصافی ہوئی ہے۔ اس کو اب تک بالکل غلط رنگ میں دیکھا جاتا رہا ہے اور یہی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اسے ملعون و مطعون قرار دے کر خارج اس سماج کر دیا جائے۔ میں ان مطہر ہستیوں کو کہا کہوں جنہوں نے اس شریف اور معزز طبقے کو سنگسار کرنے کے لیے پتھر اٹھائے ہیں:

آتش کدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے اے وائے اگر معرض اظہار میں آوے
 صدر نے دفعتہً گرج کر کہا، "خاموش ۔۔۔ بس اب آپ کو مزید بولنے کی اجازت نہیں ہے۔"

مقرر نے مسکرا کر کہا : "حضرت غالب کی اسی غزل کا ایک شعر ہے:

دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے

ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ صدر نے اجلاس برخواست کرنا چاہا مگر لوگوں نے کہا کہ نہیں چوروں اور غنڈوں کی یونین کے نمائندے کو تقریر ختم ہو جائے تو کاروائی بند کی جائے۔ صدر اور دوسرے اراکین اجلاش نے پہلے آمادگی ظاہر نہ کی لیکن بعد میں رائے عامہ کے سامنے انہیں جھکنا پڑا۔ مقرر کو بولنے کی اجازت مل گئی۔

اس نے صاحب صدر کا مناسب و موزوں الفاظ میں شکریہ ادا کیا اور کہنا شروع کیا، "ہماری یونین کو صرف اس لیے نفرت و تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ چوروں، اٹھائی گیروں، راہزنوں اور ڈاکوؤں کی انجمن ہے جو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہے۔ میں آپ لوگوں کے جذبات بخوبی سمجھتا ہوں۔ آپ کا فوری ردِ عمل کس قسم کا تھا، میں اس کا بھی تصور کر سکتا ہوں، مگر چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کے حقوق کیا نہیں ہوتے؟ یا نہیں ہو سکتے؟ میں سمجھتا ہوں کوئی سلیم الدماغ آدمی ایسا نہیں سوچ سکتا ۔۔۔ جس طرح سب سے پہلے آپ انسان ہیں، بعد میں سیٹھ صاحب ہیں، رئیس اعظم ہیں، میونسپل کمشنر ہیں، وزیر داخلہ ہیں یا خارجہ، اسی طرح وہ بھی سب سے پہلے آپ ہی کی طرح انسان ہیں۔ چور، ڈاکو، اٹھائی گیرا، جیب کترا اور بلیک مارکیٹئر بعد میں ہے۔ جو حقوق دوسرے انسانوں کو اس سقف نیلوفری کے نیچے مہیا ہیں، وہ اسے بھی مہیا ہیں اور ہونے چاہیں۔ جن نعمتوں کے دوسرے انسان متمتع ہوتے ہیں، ان سے وہ بھی مستفیذ ہونے کا حق رکھتا ہے۔ ۔۔۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک چور یا ڈاکو کیوں شئے لطیف سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں اسے ایک ایسا شخص متصور کیا جاتا ہے جو معمولی حسیات سے بھی عاری ہے ۔۔۔ معاف فرمائیے وہ اچھا شعر سن کر اسی طرح پھڑک اٹھتا ہے جس طرح کوئی دوسرا سخن فہم۔ صبح بنارس اور شام اودھ سے صرف آپ ہی لطف اندوز نہیں ہوتے، وہ بھی ہوتا ہے۔ سُر تال کی اس کو بھی خبر ہے۔ وہ پولیس کے ہاتھوں ہی گرفتار ہونا نہیں جانتا، کسی حسینہ کے دامِ اُلفت میں گرفتار ہونے کا سلیقہ بھی جانتا ہے۔ شادی کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے۔ ان کو چوری سے منع کرتا ہے، جھوٹ بولنے سے روکتا ہے۔۔۔۔۔۔ خدانخواستہ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے دل کو صدمہ بھی پہنچتا ہے۔"یہ کہتے ہوئے اس کی آواز کسی قدر گلو گیر ہو گئی لیکن فوراّ ہی اس نے رخ بدلا اور مسکراتے ہوئے کہا، "حضرت غالب کے اس شعر کا جو مزا وہ لے سکتا ہے، معاف کیجیئے، آپ میں سے کوئی بھی نہیں لے سکتا:

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
 سارا ہال شگفتہ ہو کر ہنسنے لگا۔ بیگم مرزبان بھی جو تقریر کے آخری حصے پر کچھ افسردہ سی ہو گئی تھیں، مسکرائیں۔ مقرر نے اسی طرح پتلی پتلی شفاف مسکراہٹ کے ساتھ کہنا شروع کیا، "مگر اب ایسے دعا دینے والے کہاں؟"

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن کے ساتھ آہ بھر کر کہا، "اور وہ رہزن بھی کہاں؟"

مقرر نے تسلیم کیا، "آپ نے بجا ارشاد فرمایا بیگم مرزبان۔ ہمیں اس افسوس ناک حقیقت کا کامل احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مل کر اپنی انجمن کی بِنا ڈالی ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ رہزن، چور اور جیب کترے، قریب قریب سب، اپنی پرانی روش اور وضعداری بھول گئے ہیں۔ لیکن مقام مسرت ہے کہ وہ اب بہت تیزی سے اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن میں ان حضرات سے جو ان غریبوں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں یہ گستاخانہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی اصلاح کے لیے اب تک انہوں نے کیا کیا ہے؟ مجھے کہنا تو نہیں چاہیے مگر تقابل کے لیے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں نہایت ذلیل، چور اور سفاک ڈاکو کہا جاتا ہے، مگر وہ لوگ کیا ہیں۔۔۔۔۔۔ کچھ اس عالی مرتبت ڈائس پر بھی بیٹھے ہیں، جو عوام کا مال و متاع دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔

ہال میں "شیم شیم "کے نعرے بلند ہوئے۔

مقرر نے کچھ توقف کے بعد کہنا شروع کیا، "ہم چوری کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے ہیں، مگر اسے کوئی نام نہیں دیتے۔ یہ معزز ہستیاں بدترین قسم کی ڈاکہ زنی کرتی ہیں مگر یہ جائز سمجھی جاتی ہیں۔ اپنی آنکھ کے اس طویل و عریض شہتیر کو کوئی نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہے ۔۔۔ کیوں ۔۔۔ یہ بڑا گستاخانہ سوال ہے۔ میں اس کا جواب سننا چاہتا ہوں، چاہے وہ اس سے بھی زیادہ گستاخ ہو۔۔۔ "تھوڑے وقفے کے بعد وہ مسکرایا، "وزیر صاحبان اپنی مسند وزارت کی سان پر استرا تیز کر کے ملک کی ہر روز حجامت کرتے رہیں۔ یہ کوئی جرم نہیں۔ لیکن کسی کی جیب سے بڑی صفائی کے ساتھ بٹوا چرانے والا قابلِ تعزیر ہے۔۔۔۔۔۔ تعزیر کر چھوڑیئے مجھے اس پر کوئی زیادہ اعتراض نہیں ۔۔۔ وہ آپ کی نظروں میں گردن زدنی ہے۔"

ڈائس پر بہت سے حضرات بے چینی اور اضطراب محسوس کرنے لگے ۔۔۔ بیگم مرزبان مسرور تھیں۔

مقرر نے اپنا گلا صاف کیا، پھر کہنا شروع کیا، "تمام محکموں میں، اوپر سے لے کر نیچے تک رشوت ستانی کا سلسلہ قائم ہے۔ یہ کسے معلوم نہیں۔ کیا یہ بھی کوئی راز ہے جس کے انکشاف کی ضرورت ہے کو خویش پروری اور کنبہ نوازی کی بدولت سخت نااہل، خر دماغ اور بدقماش بڑے بڑے عہدے سنبھالے بیٹھے ہیں۔ معاف فرمائیے گا، ادھر ہمارے طبقے میں ایسے افسوس ناک حالات موجود نہیں ہیں۔ کوئی چور اپنے کسی عزیز کو بڑی چوری کے لیے منتخب نہیں کرے گا۔ ہمارے ہاں لوگ اس قسم کی رعایتوں سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے کہ چوری کرنے، جیب کاٹنے یا ڈاکہ ڈالنے کے لیے دل گردے اور مہارت و قابلیت کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی سفارش کام نہیں آتی۔ ہر شخص کا کام ہی خود اس کا امتحان ہوتا ہے۔ جو اس کو فوراّ نتیجے سے باخبر کر دیتا ہے۔"

ہال میں سب خاموش تھے اور بڑے غور سے سن رہے تھے۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد مقرر کی آواز پھر بلند ہوئی، "میں بدکاری معاف کر سکتا ہوں لیکن خامکاری ہرگز ہر گز معاف نہیں کر سکتا ۔۔۔ وہ لوگ یقیناً قابلِ مواخذہ ہیں جو نہایت ہی بھونڈے طریقے پر ملک کی دولت لوٹتے ہیں۔ ایسے بھونڈے طریقے پر کہ ان کے کرتوتوں کے بھانڈے ہر دوسرے روز چوراہوں میں پھوٹتے ہیں۔ وہ پکڑے جاتے ہیں مگر بچ نکلتے ہیں کہ ان کے نام دس نمبر کے بستہ الف میں درج ہیں نہ بستہ ب میں۔۔۔۔۔۔ یہ کس قدر ناانصافی ہے۔۔۔۔۔۔ میں تو سمجھتا ہوں بیچارے انصاف کا۔۔۔۔۔۔ اندھے انصاف کا خون یہیں پر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ نہیں ایسے اور بھی کئی مقتل ہیں جہاں انصاف، انسانیت، شرافت و نجابت، تقدس و طہارت، دین و دنیا، سب کو ایک ہی پھندے میں ڈال کر ہر روز پھانسی دی جاتی ہے ۔۔۔ میں پوچھتا ہوں انسانوں کی خام کھالوں کی تجارت کرنے والے ہم ہیں یا آپ۔۔۔۔۔۔ میں سوال کرتا ہوں ازمنہ عتیق کی بربریت کی طرف امن پسند انسانوں کی کشاں کشاں کھینچ کر لے جانے والے ہم ہیں یا آپ۔۔۔۔۔۔ اور استفسار کرتا ہوں کہ دوسرے اجناس کی طرح ملاوٹ کر کے اپنے ایمان کو آپ بیچتے ہیں یا ہم؟"

ہال پر قبر کی سی خاموشی طاری تھی۔ مقرر نے جیب سے اپنا سفید رومال نکال کر منہ صاف کیا اور اسے ہوا میں لہرا کر کہا، "صاحب صدر، خاتونِ مکرم اور معزز حضرات، مجھے معاف فرمایئے کہ میں ذرا جذبات کی رو میں بہہ گیا۔۔۔۔۔۔ عرض ہے کہ جدھر نظر اٹھائی جائے، ایمان فروش ہوتا ہے یا ضمیر فروش، وطن فروش ہوتا ہے یا ملت فروش۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بھی کوئی فروخت کرنے کی چیزیں ہیں۔ انسان تو انہیں نہایت مشکل وقت میں بھی ایک لمحے کے لیے گروی نہیں رکھ سکتا، مگر میں انسانوں کی بات کر رہا ہوں۔ معاف کیجیئے، میرے لہجے میں پھر تلخی پیدا ہو گئ:

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

یہ کہتا ہوا وہ ڈائس کی طرف بڑھا، "صاحب صدر، محترم خاتون مرزبان اور معزز حضرات، میں اپنی یونین کی طرف سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے لب کشائی کا موقع دیا۔"

ڈائس کے پاس پہنچ کر اس نے صدر کی طرف ہاتھ بڑھایا، "میں اب ایک دوست کی حیثیت سے رخصت چاہتا ہوں۔"

صدر نے ہچکچاتے ہوئے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد اس نے بیگم مرزبان کی طرف ہاتھ بڑھایا، "اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔۔۔۔"

بیگم مرزبان نے بڑے بھول پن سے اپنا ہاتھ پیش کر دیا۔ باقی معززین اور رؤسا سے ہاتھ ملا کر جب فارغ ہوا تو خدا حافظ کہہ کر چلنے لگا، لیکن فورا ہی رک گیا۔ اپنی دونوں جیبوں سے اس نے بہت سی چیزیں نکالیں اور صدر کی میز پر ایک ایک کر کے رکھ دیں۔ پھر وہ مسکرایا، "ایک عرصے سے جیب تراشی چھوڑ چکا ہوں، آج کل سیف توڑنا میرا پیشہ ہے۔۔۔۔۔۔ آج صرف از راہ تفریح آپ لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر دیا۔"یہ کہہ کر وہ بیگم مرزبان سے مخاطب ہوا، "خاتون مکرم معاف کیجیئے، آپ کے وینیٹی بیگ سے بھی میں نے ایک چیز نکالی تھی، مگر وہ ایسی ہے کہ سب کے سامنے آپ کو واپس نہیں کر سکتا۔"

اور وہ تیزی کے ساتھ ہال سے باہر نکل گیا۔