کوفہ جو امام ابو حنیفہؒ کا مولد و مسکن ہے، اسلام کی وسعت و تمدن کا گویا دیباچہ تھا۔ اصل عرب کی روز افزوں ترقی کے لئے عرب کی مختصر آبادی کافی نہ تھی۔ اس ضرورت سے حضرت عمرؓ نے سعد بن وقاصؓ کو جو اس وقت حکومتِ کسریٰ کا خاتمہ کر کے مدائن میں اقامت گزیں تھے، خط لکھا: "مسلمانوں کے لئے ایک شہر بساؤ جو ان کا دارالہجرت اور قرار گاہ ہو" سعدؓ نے کوفہ کی زمین پسند کی۔

17ھ میں اس کی بنیاد کا پتھر رکھا گیا۔ اور معمولی سادہ وضع کی عمارتیں تیار ہوئیں۔ اسی وقت عرب کے قبائل ہر طرف سے آ کر آباد ہونے شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ تھوڑے دنوں میں وہ عرب کا ایک خطہ بن گیا۔

حضرت عمرؓ نے یمن کے بارہ ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمیوں کے لئے جو وہاں جا کر آباد ہوئے روزینے مقرر کر دیئے۔ چند روز میں جمعیت کے اعتبار سے کوفہ نے وہ حالت پیدا کی کہ جنابِ فاروقؓ کوفہ کو "رمح اﷲ، کنز الایمان، جمجمۃ العرب" یعنی خدا کا علم، ایمان کا خزانہ، عرب کا سر، کہنے لگے۔ اور خط لکھتے تو اس عنوان سے لکھتے تھے "الیٰ رأس الا سلام، الی رأس العرب۔" بعد میں حضرت علیؓ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا۔

صحابہؓ میں سے ایک ہزار پچاس اشخاص جن میں چوبیس وہ بزرگ تھے جو غزوۂ بدر میں رسول اﷲﷺ کے ہمرکاب رہے تھے، وہاں گئے اور بہتوں نے سکونت اختیار کر لی۔ ان بزرگوں کی بدولت ہر جگہ حدیث و روایت کے چرچے پھیل گئے تھے اور کوفہ کا ایک ایک گھر حدیث و روایت کی درسگاہ بنا ہوا تھا۔