امام صاحبؒ کے بچپن کا زمانہ نہایت پر آشوب زمانہ تھا۔ حجاج بن یوسف، خلیفہ عبد الملک کی طرف سے عراق کا گورنر تھا۔ ہر طرف ایک قیامت برپا تھی۔ حجاج کی سفاکیاں زیادہ تر انہیں لوگوں پر مبذول تھیں جو ائمہ مذاہب اور علم و فضل کی حیثیت سے مقتدائے عام تھے۔

خلیفہ عبد الملک نے 86ھ میں وفات پائی اور اس کا بیٹا ولید تخت نشین ہوا۔

اس زمانہ کی نسبت حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ فرمایا کر تے تھے۔ "ولید شام میں، حجاج عراق میں، عثمان حجاز میں، قرہ مصر میں، واللہ تمام دنیا ظلم سے بھری تھی۔"

ملک کی خوش قسمتی تھی کہ حجاج 95ھ میں مر گیا۔ ولید نے بھی 96ھ میں وفات پائی۔ ولید کے بعد سلیمان بن عبد الملک نے مسندِ خلافت کو زینت دی جس کی نسبت مورخین کا بیان ہے کہ خلفاء بنو امیّہ میں سب سے افضل تھا۔ سلیمانؒ نے اسلامی دنیا پر سب سے بڑا یہ احسان کیا کہ مرتے دم تحریری وصیت کی کہ میرے بعد عمر بن عبد العزیزؒ تخت نشیں ہوں۔ سلیمان نے 99ھ میں وفات پائی اور وصیت کے موافق عمر بن عبد العزیزؒ مسندِ خلافت پر بیٹھے جن کا عدل و انصاف اور علم و عمل معروف و مشہور ہے۔

غرض حجاج و ولید کے عہد تک تو امام ابو حنیفہؒ کو تحصیلِ علم کی طرف متوجہ ہونے کی نہ رغبت ہو سکتی تھی نہ کافی موقع مل سکتا تھا۔ تجارت باپ دادا کی میراث تھی ا س لئے خز (ایک خاص قسم کے کپڑے) کا کارخانہ قائم کیا اور حسنِ تدبیر سے اسکو بہت کچھ ترقی دی۔