امام صاحبؒ کے اساتذہ

امام ابو حفص کبیرؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے اساتذہ کے شمار کرنے کا حکم دیا۔ حکم کے مطابق شمار کئے گئے تو ان کی تعداد چار ہزار تک پہنچی۔ علامہ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں جہاں ان کے شیوخِ حدیث کے نام گنائے ہیں اخیر میں لکھ دیا ہے "وخلق ٌکثیرٌ۔" حافظ ابو المحاسن شافعیؒ نے تین سوانیس(319) شخصیتوں کے نام بقیدِ نسب لکھے ہیں۔

امام صاحبؒ نے ایک گروہِ کثیر سے استفادہ کیا جو بڑے بڑے محدث اور سند و روایت کے مرجعِ عام تھے۔ مثلاً اما م شعبیؒ، سلمہ بن کہیلؒ، ابو اسحاق سبعیؒ، سماک بن حربؒ، محارب بن ورثائؒ، عون بن عبد اللہؒ، ہشام بن عروہؒ، اعمشؒ، قتادہؒ، شعبہؒ اور عکرمہؒ۔ ہم مختصراً آپؒ کے خاص خاص شیوخ کا ذکر کر رہے ہیں جن سے آپؒ نے مدتوں استفادہ کیا ہے۔

امام شعبیؒ۔ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے اول اول امام ابو حنیفہؒ کو تحصیلِ علم کی رغبت دلائی تھی۔ بہت سے صحابہؓ سے حدیثیں روایت کی تھیں۔ مشہور ہے کہ پانسو صحابہؓ کو دیکھا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ان کو ایک بار مغازی کا درس دیتے دیکھا تو فرمایا کہ "واللہ! یہ شخص اس فن کو مجھ سے اچھا جانتا ہے۔" 106ھ میں وفات پائی۔

سلمہ بن کہیلؒ مشہور محدث اور تابعی تھے۔ ابن سعدؒ نے ان کو کثیر الحدیث لکھا ہے۔ ابن مہدیؒ کا قول تھا کہ کوفہ میں چار اشخاص سب سے زیادہ صحیح الروایت تھے: منصورؒ، سلمہ بن کہیلؒ، عمرو بن مرہؒ، ابو حصینؒ۔

ابو اسحاق سبیعیؒ کبارِ تابعین میں سے تھے۔ عبد اللہؓ بن عباسؒ، عبد اللہ بن عمرؓ، ابن زبیرؓ، نعمان بن بشیرؓ، زید بن ارقمؓ سے حدیثیں سنی تھیں۔ عجلیؒ نے کہا ہے کہ اڑتیس صحابہؓ سے ان کو بالمشافہ روایت حاصل ہے۔

محاربؒ بن ورثاء نے عبد اللہ بن عمرؓ اور جابرؓ وغیرہ سے روایت کی۔ امام سفیان ثوریؒ کہا کر تے تھے کہ "میں نے کسی زاہد کو نہیں دیکھا جس کو محاربؒ پر ترجیح دوں۔"

علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ "محاربؒ عموماً حجت ہیں۔" کوفہ میں منصبِ قضا پر معمور تھے۔ 116ھ میں وفات پائی۔

عونؒ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعودؓ، حضرت ابو ہریرہؓ اور عبد اللہ بن عمرؓ سے حدیثیں روایت کیں۔ نہایت ثقہ اور پرہیزگار تھے۔

ہشام بن عروہؒ معزز و مشہور تابعی تھے بہت سے صحابہؓ سے حدیثیں روایت کیں۔ بڑے بڑے ائمۂ حدیث مثلاً سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ، سفیان بن عیینہؒ ان کے شاگرد تھے۔

خلیفہ منصور ان کا احترام کیا کر تا تھا۔ ان کے جنازہ کی نماز بھی منصور نے ہی پڑھائی تھی ابن سعدؒ نے لکھا ہے وہ ثقہ اور کثیر الحدیث تھے۔

اعمشؒ کوفہ کے مشہور امام تھے۔ صحابہؓ میں سے انس بن مالکؓ سے ملے تھے اور عبدللہ بن اونیؒ سے حدیث سنی تھی۔ سفیان ثوریؒ اور شعبہؒ ان کے شاگرد ہیں۔

قتادہؒ بہت بڑے محدث اور مشہور تابعی تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ و عبد اللہ بن سرخسؓ و ابو الطفیلؓ اور دیگر صحابہ سے حدیثیں روایت کیں۔ حضرت انسؓ کے دو شاگرد جو نہایت نامور ہیں ان میں ایک ہیں۔ اس خصوصیت میں ان کو نہایت شہرت تھی کہ حدیث کو بعینہ ادا کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے ان کی فقہ و واقفیتِ اختلاف و تفسیر دانی کی نہایت مدح کی ہے اور کہا ہے کہ "کو ئی شخص ان باتوں میں ان کے برا بر ہو تو ہو مگر ان سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔

شعبہؒ بھی بڑے رتبہ کے محدث تھے۔ سفیان ثوریؒ نے فن حدیث میں ان کو امیر المومنین کہا ہے۔ عراق میں یہ پہلے شخص ہیں جس نے جرح و تعدیل کے مراتب مقرر کئے۔ امام شافعیؒ فرمایا کر تے تھے کہ شعبہؒ نہ ہو تے تو عراق میں حدیث کا رواج نہ ہوتا۔ شعبہؒ کا امام ابو حنیفہ کے ساتھ ایک خاص ربط تھا۔ غائبانہ ان کی ذہانت و خوبئ فہم کی تعریف کر تے تھے۔ ایک بار امام صاحبؒ کا ذکر آیا تو کہا جس یقین کے ساتھ میں یہ جانتا ہوں کہ آفتاب روشن ہے اسی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ علم اور ابو حنیفہؒ روشن ہیں۔

یحیٰ بن معین (جو امام بخاریؒ کے استاذ ہیں) سے کسی نے پوچھا کہ آپ ابو حنیفہؒ کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں؟ فرمایا اس قدر کافی ہے کہ شعبہؒ نے انکو حدیث و روایت کی اجازت دی اور شعبہ آخر شعبہؒ ہی ہیں۔ بصرہ کے اور شیوخ جن سے ابو حنیفہؒ نے حدیثیں روایت کیں۔ ان میں عبد الکریم بن امیہؒ اور عاصم بن سلیمان الاحولؒ زیادہ ممتاز ہیں۔