امام صاحبؒ کے اساتذہ ان کا اس قدر ادب و احترام کرتے تھے کہ لوگوں کو تعجب ہوتا تھا۔ محمد بن فضلؒ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ امام ابو حنیفہؒ ایک حدیث کی تحقیق کے لئے خطیبؒ کے پاس گئے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ خطیبؒ نے ان کو آتے دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت تعظیم کے ساتھ لا کر اپنے برابر بٹھایا۔

عمرو بن دینارؒ جو مکہ کے مشہور محدث تھے۔ ابو حنیفہؒ کے ہوتے ہوئے حلقۂ درس میں اور کسی کی طرف خطاب نہیں کرتے تھے۔

امام مالکؒ بھی ان کا نہایت احترام کرتے تھے۔ عبد اﷲ بن مبارکؒ کی زبانی منقول ہے کہ میں امام مالکؒ کے درسِ حدیث میں حاضر تھا۔ ایک بزرگ آئے جن کی انہوں نے نہایت تعظیم کی اور اپنے برابر بٹھایا۔ ان کے جانے کے بعد فرمایا "جانتے ہو یہ کون شخص تھا؟ یہ ابو حنیفہؒ عراقی تھے جو اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔" ذرا دیر کے بعد ایک اور بزرگ آئے امام مالکؒ نے ان کی بھی تعظیم کی لیکن نہ اس قدر جتنی ابو حنیفہؒ کی کی تھی، وہ اٹھ گئے تو لوگوں سے کہا "یہ سفیان ثوریؒ تھے۔"