اول اول حمادؒ کے پرانے شاگرد درس میں شریک ہوتے تھے۔ لیکن چند روز میں وہ شہرت ہوئی کہ کوفہ کی درسگاہیں ٹوٹ کر ان کے حلقہ میں آ ملیں، نوبت یہاں تک پہنچی کہ خود ان کے اساتذہ مثلاً مسعر بن کدامؒ، امام اعمشؒ وغیرہ ان سے استفادہ کر تے تھے اور دوسروں کو ترغیب دلاتے تھے۔

ابن ابی لیلی، شریک، ابن شبرمہ آپ کی مخالفت کرنے لگے اور آپ کی عیب جوئی میں لگ گئے معاملہ اس طرح چلتا رہا مگر امام صاحبؒ کی بات مضبوط ہوتی گئی۔ امراء کو آپ کی ضرورت پڑنے لگی اور خلفاء نے آپ کو یاد کرنا اور شرفاء نے اکرام کرنا شروع کر دیا۔ آپ کا مرتبہ بڑھتا چلا گیا شاگردوں کی زیادتی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ مسجد میں سب سے بڑا حلقہ آپ کا ہوتا اور سوالوں کے جواب میں بڑی وسعت ہوتی۔ لوگوں کی توجہ آپ کی طرف ہوتی گئی۔ امام صاحبؒ لوگوں کے مصائب میں ہاتھ بٹانے لگے، لوگوں کا بوجھ اٹھانے لگے اور ایسے ایسے کام کرنے لگے جن کو کرنے سے دوسرے لوگ عاجز تھے۔ اس سے آپ کو بڑی قوت ملی الغرض تقدیرِ خداوندی نے آپ کو سعید و کامیاب کیا۔

اسلامی دنیا کا کوئی حصہ نہ تھا جو ان کی شاگردی کے تعلق سے آزاد رہا ہو۔ جن جن مقامات کے رہنے والے ان کی خدمت میں پہنچے ان سب کا شمار ممکن نہیں لیکن جن اضلاع و ممالک کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے وہ یہ ہیں: مکہ، مدینہ، دمشق، بصرہ، مصر، یمن، یمامہ، بغداد، اصفہان، استرآباد، ہمدان، طبرستان، مرجان، نیشاپور، سرخس، بخارا، سمرقند، کس، صعانیاں، ترمذ، ہرات، خوازم، سبستان، مدائن، حمص وغیرہ۔ مختصر یہ کہ ان کی استادی کے حدود خلیفۂ وقت کی حدودِ حکومت سے کہیں زیادہ تھے۔

پھر تو آپؒ کے شاگردوں میں بڑے بڑے امام ہوئے، بڑے بڑے علماء آپ کی صحبت میں حاضر ہوئے۔ یحیٰ بن سعیدؒ، عبداللہ بن مبارکؒ، یحیٰ بن زکریاؒ، وکیع بن جراحؒ، یزید بن ہارونؒ، حفص بن غیاصؒ، ابو عاصمؒ عبد الرزاق بن ہمامؒ، داوٗد الطائیؒ جیسے محدثین اور قاضی ابو یوسفؒ، محمد بن حسن الشیبانیؒ، زفرؒ، حسن بن زیادؒ جیسے فقہاء پیدا ہوئے۔

امام ابو حنیفہؒ ان لوگوں کو علمِ حدیث و فقہ کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کا بڑا خیال رکھتے تھے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ فرماتے تھے۔ آپ کے نامور شاگردوں کا ذکر آئندہ باب میں "تلامذہ و تصنیفات" کے عنوان سے آ رہا ہے۔