ان کے مر نے کی خبر جلد تمام شہر میں پھیل گئی اور سارا بغداد امڈ آیا۔ حسن بن عمارہ نے جو قاضی شہر تھے غسل دیا، نہلا تے تھے اور کہتے جاتے تھے "واللہ!تم سب سے بڑے فقیہ، بڑے عابد، بڑے زاہد تھے، تم میں تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں۔

غسل سے فارغ ہو تے ہوئے لوگوں کی یہ کثرت ہو ئی کہ پہلی بار نمازِ جنازہ میں کم و بیش پچاس ہزار کا مجمع تھا اس پر بھی آنے والوں کا سلسلہ قائم تھا۔ یہاں تک کہ چھ بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور عصر کے قریب جاکر لاش دفن ہو سکی۔ لوگوں کا یہ حال تھا کہ تقریباً بیس دن تک ان کی نماز جنازہ پڑھتے رہے۔

امام صاحبؒ نے وصیت کی تھی کہ خیزران میں دفن کئے جائیں۔ کیونکہ یہ جگہ ان کے خیال میں مغضوب نہ تھی اس وصیت کے موافق خیزران کے مشرقی جانب ان کا مقبرہ تیار ہوا۔ سلطان الپ ارسلان سلجوقی جو عادل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت فیاض بھی تھا اس نے 459ھ میں ان کی قبر کے قریب ایک مدرسہ تیار کرایا جو مشہدِ ابو حنیفہؒ کے نام سے مشہور ہے۔