امام صاحبؒ کی اولاد

امام صاحبؒ کی اولاد کا مفصل حال معلوم نہیں مگر اس قدر یقینی ہے کہ وفات کے وقت حماد کے سوا کوئی اولاد نہ تھی۔ حماد بڑے رتبہ کے فاضل تھے بچپن میں ان کی تعلیم نہایت اہتمام سے ہوئی تھی۔ چنانچہ جب الحمد ختم کی تو انکے پدرِ بزرگوار نے اس تقریب میں معلم کو پانچ سو درہم نذر کیئے۔ بڑے ہوئے تو خود امام صاحبؒ سے مراتبِ علمی کی تکمیل کی۔ علم و فضل کے ساتھ بے نیازی اور پرہیز گاری میں بھی باپ کے خلف الرشید تھے۔ تمام عمر کسی کی ملازمت نہیں کی نہ شاہی دربار سے کچھ تعلق پیدا کیا۔ ذیقعدہ 176ھ میں قضا کی۔ چار بیٹے چھوڑے عمر، اسمعیل، ابو حیان اور عثمان۔

امام صاحبؒ کے پوتے اسمعیلؒ نے علم و فضل میں نہایت شہرت حاصل کی۔ چنانچہ مامون الرشید نے اُن کو عہدۂ قضا پر مامور کیا جس کو انہوں نے اس دیانت داری اور انصاف سے انجام دیا کہ جب بصرہ سے چلے تو سارا شہر ان کو رخصت کرنے کو نکلا اور سب لوگ اُن کے جان و مال کو دعائیں دیتے تھے۔

امام صاحبؒ کی معنوی اولاد تو آج تمام دنیا میں پھیلی ہو ئی ہے اور شاید چھ سات کروڑ سے کم نہ ہو گی اور خدا کے فضل سے علم فضل کا جوہر بھی نسلا بعد نسل اُ ن کی میراث میں چلا آتا ہے۔