امام صاحبؒ کی مرویات کم کیوں ہیں؟

امام صاحب نے روایت کے متعلق جو شرطیں اختیار کیں کچھ تو وہی ہیں جو اور محدثین کے نزدیک مسلم ہیں کچھ ایسی ہیں جن میں وہ منفرد ہیں یا صرف امام مالکؒ اور بعض اور مجتہدین ان کے ہم زبان ہیں۔ ان میں سے ایک یہ مسئلہ ہے کہ "صرف وہ حدیثیں حجت ہیں جس کو راوی نے اپنے کانوں سے سنا ہو، اور روایت کے وقت تک اس کو یاد رکھا ہو۔"

یہ قاعدہ بظاہر نہایت صاف جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا لیکن اس کی تفریعیں نہایت وسیع اثر رکھتی ہیں اور عام محدثین کو اُن سے اتفاق نہیں ہے۔ محدثین کے نزدیک ان پابندیوں سے روایت کا دائرہ تنگ ہو جا تا ہے لیکن اما م صاحبؒ نے روایت کی وسعت کی نسبت احتیاط کو مقدم رکھا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ امام صاحبؒ کا اشتغال مسائل کو دلائل سے استنباط کر نے میں زیادہ رہا جیسے کہ کبارِ صحابہؓ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ عمل میں مشغول رہے اسی وجہ سے ان کی مرویات کم ہیں اس کے برخلاف جو صحابہؓ ان سے کم مر تبہ ہیں ان کی روایات ان اکابر صحابہؓ کی بہ نسبت زیادہ ہیں۔

یہ تمام باتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ علمِ حدیث میں امام ابو حنیفہؒ کا کیا پایہ تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں نے امام ابو حنیفہؒ کو امام ابو حنیفہؒ نہیں بنایا۔ اگر وہ حافظ الحدیث تھے تو اور لو گ بھی تھے۔ اگر انکے شیوخِ حدیث کئی سو تھے تو بعض ائمہ سلف کے شیوخ کئی کئی ہزار تھے۔ اگر انہوں نے کوفہ و حرمین کی درسگاہ میں تعلیم پائی تھی تو اوروں نے بھی یہ شرف حاصل کیا تھا۔ ابو حنیفہ کو جس بات نے تمام ہم عصروں میں امتیاز دیا وہ اور چیز ہے جو ان سب باتوں سے با لا تر ہے یعنی احادیث کی تنقید اور بلحاظِ ثبوت احکام، ان کے مرا تب کی تفریق۔

امام ابو حنیفہؒ کے بعد علمِ حدیث کو بہت ترقی ہوئی غیر مرتب اور منتشر حدیثیں یکجا کی گئیں۔ صحت کا التزام کیا گیا۔ اصولِ حدیث کا مستقل فن قائم ہو گیا جس کے متعلق سینکڑوں بیش بہا کتابیں تصنیف ہوئیں۔ زمانہ اس قدر ترقی کر گیا تھا کہ باریک بینی اور دقتِ آفرینی کی کو ئی حد نہیں رہی۔ تجربہ اور دقتِ نظر نے سیکڑوں نئے نقطے ایجاد کئے لیکن تنقیدِ احادیث، اصولِ درایت، امتیازِ مراتب میں امام ابو حنیفہؒ کی تحقیق کی جو حد ہے آج بھی ترقی کا قدم اس سے آگے نہیں بڑھتا۔