فقہ حنفی کے مسائل نصوصِ شرعیہ کے زیادہ قریب ہیں۔ جب ایک مسئلہ میں بہت سی احادیث جمع ہو جاتی ہیں تو امام صاحبؒ ان میں جو روایتاً و درایتاً قوی ہوتی ہے اس کو اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً ایک مشہور مسئلہ، مسئلہ رفع یدین کو لے لیجئے۔ مثلاً امام اوزاعیؒ جو ملکِ شام کے امام اور فقہ میں مذہبِ مستقل کے بانی تھے، مکہ معظمہ میں امام ابو حنیفہؒ سے ملے اور کہا کہ "عراق والوں سے نہایت تعجب ہے کہ رکوع اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین نہیں کرتے حالانکہ میں نے زہریؒ سے انہوں نے سالم بن عبد اللہؒ سے، انہوں نے عبد اللہ بن عمرؓ سے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان موقعوں پر رفع یدین فرماتے تھے۔

امام ابو حنیفہؒ نے اسکے مقابلہ میں حمادؒ، ابراہیم نخعیؒ، علقمہؒ اور عبد اللہ بن مسعودؓ کے سلسلہ سے حدیث روایت کی کہ آنحضرتﷺ ان موقعوں پر رفع یدین نہیں فرماتے تھے۔ امام اوزاعیؒ نے یہ سن کر کہا "سبحان اللہ! میں تو زہریؒ، سالمؒ، عبد اللہ بن عمرؓ کے ذریعہ حدیث بیان کرتا ہوں آپ اس کے مقابلہ حمادؒ، نخعیؒ، علقمہؒ کا نام لیتے ہیں۔

امام ابو حنیفہؒ نے کہا میرے رواۃ آپ کے راویوں سے زیادہ فقیہ ہیں اور عبد اللہ بن مسعودؓ کا رتبہ خود معلوم ہی ہے، اس لئے ان کی روایت کو ترجیح ہو گی۔

امام محمدؒ کتاب الحج میں لکھتے ہیں عبد اللہ بن مسعودؓ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں پوری عمر کو پہنچ چکے تھے۔ سفر و حضر میں ساتھ رہتے تھے اور جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے کہ جماعت کی صفِ اول میں جگہ پاتے تھے بخلاف اس کے عبد اللہ بن عمرؓ کا محض آغاز تھا۔ پیچھے صف میں کھڑا ہونا پڑتا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ کے حرکات و سکنات سے واقف ہو نے کے جو مواقع عبد اللہ بن مسعودؓ کو مل سکے عبد اللہ بن عمرؓ کو کیونکر حاصل ہو سکتے تھے؟ امام محمدؒ کا یہ طرزِ استدلال حقیقت میں اصولِ درایت پر مبنی ہے۔ امام ابو حنیفہؒ نے امام اوزاعیؒ کے سامنے اپنی تقریر میں عبد اللہ بن مسعودؓ کی عظمت و شان کا جو ذکر کیا اس میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔