چوتھی خصوصیت جو حنفی فقہ کو حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ذمیوں یعنی ان لوگوں کو جو مسلمان نہیں ہیں لیکن مسلمانوں کی حکومت میں مطیعانہ رہتے ہیں نہایت فیاضی اور آزادی سے حقوق بخشے۔ امام ابو حنیفہؒ نے ذمیوں کو جو حقوق دیئے ہیں دنیا میں کسی حکومت نے کبھی کسی غیر قوم کو نہیں دیئے۔ یورپ جس کو اپنے قانونِ انصاف پر بڑا ناز ہے بے شک زبانی دعویٰ کر سکتا ہے لیکن عملی مثالیں نہیں پیش کر سکتا۔ حالانکہ امام ابو حنیفہؒ کے یہ احکام اسلامی گورنمنٹوں میں عموماً نافذ تھے۔ اور خاص کر ہارون الرشید کی وسیع حکومت انہی احکام پر قائم تھی۔

سب سے بڑا مسئلہ قتل و قصاص کا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ذمیوں کا خون مسلمانوں کے خون کے برابر ہے۔ یعنی اگر مسلمان ذمی کو عمداً قتل کر ڈالے تو مسلمان بھی اس کے بدلے قتل کیا جائے گا اور اگر غلطی سے قتل کر دے تو جو خون بہا مسلمان کے قتل بالخطا سے لازم آتا ہے وہی ذمی کے قتل سے بھی لازم آئے گا۔

امام ابو حنیفہؒ نے ذمیوں کے لئے اور جو قواعد مقرر کئے وہ نہایت فیاضانہ قواعد ہیں۔ وہ تجارت میں مسلمانوں کی طرح آزاد ہیں ہر قسم کی تجارت کر سکتے ہیں اور ان سے اسی شرح سے ٹیکس لیا جائے گا جس طرح مسلمانوں سے لیا جاتا ہے۔ جزیہ جو ان کی محافظت کا ٹیکس ہے اس کی شرح، حسبِ حیثیت قائم کی جائے گی۔ مفلس شخص جزیہ سے بالکل معاف ہے اگر کوئی شخص جزیہ کا باقی دار ہو کر مر جائے تو جزیہ ساقط ہو جائے گا۔ ذمیوں کے معاملات انہی کی شریعت کے موافق فیصل کئے جائیں گے۔ یہاں تک کہ مثلاً اگر کسی مجوسی نے اپنی بیٹی سے نکاح کیا تو اسلامی گورنمنٹ اس نکاح کو اس کی شریعت کے موافق صحیح تسلیم کرے گی۔ ذمیوں کی شہادت ان کے باہمی مقدمات میں قبول ہو گی۔

اب اس کے مقابلے اور ائمہ کے مسائل دیکھو۔ امام شافعیؒ کے نزدیک کسی مسلمان کو، گو بے جرم اور عمداً کسی ذمی کو قتل کیا ہوتا ہم وہ قصاص سے بری رہے گا۔ صرف دیت دینی ہو گی۔ یعنی مالی معاوضہ ادا کرنا ہو گا۔ وہ بھی مسلمان کی دیت کی ایک ثلث اور امام مالکؒ کے نزدیک نصف۔ تجارت میں یہ سختی ہے کہ ذمی اگر تجارت کا مال ایک شہر سے دوسرے شہر کو لے جائے تو سال میں جتنی بار لے جائے ہر بار اس سے نیا ٹیکس لیا جائے گا۔ جزیہ کے متعلق امام شافعیؒ کا مذہب ہے کہ کسی حال میں ایک اشرفی سے کم نہیں ہو سکتا اور بوڑھے، اندھے، اپاہج، مفلس، تارک الدنیا تک اس سے معاف نہیں ہو سکتا۔ بلکہ امام شافعیؒ سے ایک روایت ہے کہ جو شخص مفلس ہونے کی وجہ سے جزیہ نہیں ادا کر سکتا وہ اسلام کی عملداری میں نہ رہنے پائے۔

خراج جو ان پر حضرت عمرؓ کے زمانے میں مقرر کیا گیا تھا اس پر اضافہ ہو سکتا ہے مگر کمی نہیں ہو سکتی۔ ذمیوں کی شہادت گو فریقین مقدمہ ذمی ہوں کسی حال میں مقبول نہیں اس مسئلہ میں امام مالکؒ و امام شافعیؒ دونوں متفق الرائے ہیں۔ ذمی اگر کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے یا کسی مسلمان عورت کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تواسی وقت اس کے تمام حقوق باطل ہو جائیں گے اور وہ کافر حربی سمجھا جائے گا۔

یہ تمام احکام ایسے سخت ہیں کہ جن کا تحمل ایک ضعیف سے ضعیف محکوم قوم بھی نہیں کر سکتی۔ اور یہی وجہ ہے کہ امام شافعیؒ وغیرہ کا مذہب سلطنت کے ساتھ نہ نبھ سکا۔ مصر میں بے شبہ ایک مدت تک گورنمنٹ کا مذہب شافعیؒ تھا لیکن اس کا یہ نتیجہ تھا کہ عیسائی اور یہودی قومیں اکثر بغاوت کرتی رہیں۔