خطیبؒ نے حمزہ سکری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ جب کسی مسئلے میں رسولِ پاک ﷺ کی حدیث ہو تو میں اسے چھوڑ کر کسی طرف نہیں جاتا بلکہ اسی کو اختیار کرتا ہوں۔ اگر صحابہؓ کے آثار ہوں اور مختلف ہوں تو انتخاب کرتا ہوں اور اگر تابعین کی بات ہو تو ان کی مزاحمت کرتا ہوں۔ یعنی ان کی طرح میں بھی اجتہاد کرتا ہوں۔

خطیبؒ نے ابوغسان سے روایت کی انہوں نے اسرائیل سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ نعمان بہترین آدمی ہیں۔ جس حدیث میں کوئی فقہی حکم ہوتا ہے اس کے وہ حافظ تھے اور اس کے اندر ان کا غور و فکر اچھوتا تھا۔ اسی وجہ سے خلفاء، وزراء اور امراء نے آپ کا اکرام کیا۔ جب کوئی آدمی ان سے کسی فقہی مسئلہ پر مباحثہ کرتا تو اسے اپنی ہی جان چھڑانی مشکل ہو جاتی تھی۔

ابوعبداﷲ محمد بن سفیان غنجار اپنی تاریخ میں نعیم بن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ لوگ بڑے عجیب ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں حالانکہ میں آثار کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں۔

ابوالمظفر سمعانی نے اپنی کتاب "الانتصا ر۔" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اور ابواسماعیل ہروس نے "ذم العظام" میں نوح الجامع سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے عرض کیا کہ لوگوں نے اعراض اور اجسام جیسی نئی باتوں میں کلام شروع کر رکھا ہے آپ اس میں کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا یہ فلسفیوں کی باتیں ہیں۔ تم آثار اور طریقِ سلف کو اپنے لئے لازم کر لو اور ہر نئی چیز سے بچو کہ وہ بدعت ہے۔

ہروی نے امام محمد بن حسن شیبانیؒ سے نقل کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے بد دعا دی کہ اﷲ کی لعنت ہو عمرو بن عبید پر (یہ اپنے زمانہ میں معتزلہ کا رئیس تھا) اس نے لوگوں کے لئے ایسے کلام کا راستہ کھول دیا جس میں ان کا کوئی فائدہ نہیں۔

ابو عبداﷲ صیمریؒ سے اسماعیل بن حماد نے روایت کی کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا جس پر ہم ہیں وہ ایک رائے ہے کسی کو اس پر مجبور نہیں کرتے اور نہ یہ کہتے ہیں کہ اس کا قبول کرنا کسی پر واجب ہے۔ اگر کسی کے پاس اس سے بہتر رائے ہو تو اسے بیان کرنا چاہیے۔ ہم قبول کریں گے۔

خوارزمی نے حسن بن زیادؒ سے روایت کی ہے کہ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ "کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ کتاب اﷲ اور سنتِ رسول اﷲﷺ اور اجماع صحابہؓ کے ہوتے ہوئے اپنی رائے سے کچھ کہے۔

جس باب میں صحابہؓ کا اختلاف ہو اس میں امام صاحبؒ ان کا قول لیتے ہیں جن کا قول قرآن اور سنت سے زیادہ قریب ہو اور کوشش کرتے ہیں کہ اقرب کو حاصل کر لیں اور جب بات ان تینوں سے آگے چلی جاتی ہے تب اپنی رائے سے اجتہاد کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں کو پوری اجازت دیتے ہیں جو اختلاف اور قیاس کو جانتے ہیں کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں۔

شعبیؒ نے مسروقؒ سے نقل کیا کہ جس نے کسی گناہ کی نذر مانی اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ امام ابو حنیفہؒ نے شعبیؓ سے عرض کیا اﷲ تعالی نے ظہار میں کفارہ مقرر فرمایا اور معصیت قرار دیا چنانچہ ارشاد ہے "انہم یقولون منکراً من القول وزورا۔"(المجادلۃ) شعبیؒ نے فرمایا "أقیاس أنت؟"

خوارزمی نے عبداﷲ بن مبارکؓ سے روایت کی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے کتاب و سنت سے دلیل کے بغیر کسی مسئلے میں لب کشائی نہیں کی۔

امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ قیاس میں سارے لوگ امام ابو حنیفہؒ کے محتاج ہیں۔

صیمری نے حسن بن صالح سے روایت کی کہ امام ابو حنیفہؒ ناسخ اور منسوخ احادیث کی تلاش بہت زیادہ کرتے تھے تاکہ جب نبی کریم ﷺ سے اس کا ثبوت ہو جائے تو اس پر عمل کریں۔ اہل کوفہ احادیث کے حافظ اور ان کے پکے متبع تھے۔ نیز کوفہ میں جو حدیثیں پہنچی تھیں ان میں رسول اللہﷺ کے آخری عمل کے بھی متبع تھے۔

حافظ معمر بن راشد سے روایت کی کہ ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر کسی شخص کو میں نہیں جانتا جو فقہ میں گفتگو کر سکے۔ اور اسے قیاس کرنے کا حق ہو۔ اور سمجھداری سے مسائل کا اخراج کر سکتا ہو اسی طرح ان سے زیادہ خوفِ خدا رکھنے والا بھی نہیں دیکھا۔ وہ خدا کے دین میں کوئی شک کی بات داخل کرنے سے اپنے لئے بڑا خوف محسوس کرتے تھے۔

زبیر بن معاویہ کہتے ہیں کہ میں امام ابو حنیفہؒ کے پاس تھا اور ابیض بن الاغر کسی مسئلے میں ان کے ساتھ بحث کر رہے تھے۔ اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف دلیلیں پیش کر رہے تھے۔ اچانک ایک آدمی مسجد کے کنارے سے چیخا، غالباً وہ مدنی تھے۔ امام صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا "یہ قیّاس ہے اسے چھوڑ دو، کیونکہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا۔" اس پر امام صاحبؒ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا "میاں! تم نے اپنی بات بے موقع کہی، ابلیس نے تو اﷲ کے حکم سے سرتابی کی تھی جب کہ ہم اپنے قیاس سے امرِ خداوندی کی اتباع تلاش کر رہے ہیں اور ہم اﷲ کی اتباع کے ارد گرد گھوم رہے ہیں تا کہ اﷲ کے حکم کی اتباع کریں۔ اور ابلیس نے جب قیاس کیا تو اﷲ کے امر کی مخالفت کی لہذا ہم دونوں برابر کس طرح ہو گئے ؟" مرد حق شناس نے عرض کیا ابو حنیفہؒ! مجھ سے غلطی ہو گئی۔ اب میں نے توبہ کر لی اﷲ آپ کے قلب کو منور فرمائے۔ جیسا کہ آپ نے میرے قلب کو منور کیا۔

ابن حزمؒ نے فرمایا کہ ابو حنیفہؒ کے تمام شاگردوں کا اتفاق ہے کہ امام صاحب کے نزدیک ضعیف حدیث قیاس اور رائے سے بہتر ہے۔