(3) تیسری بات یہ ہے کہ ائمہ مجتہدین کے درمیان سینکڑوں فقہی مسائل میں جو اختلافات واقع ہوئے ہیں، اس کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ مجتہد کا طرزِ استدلال اور طریق استنباط جدا جدا ہو تا ہے۔ مثلاً بعض مجتہد ین کا طرز یہ ہے کہ اگر ایک مسئلے میں احادیث بظاہر متعارض ہوں تو وہ اس روایت کو لے لیتے ہیں جنکی سند سب سے زیادہ صحیح ہو خواہ دوسری احادیث بھی سنداً درست ہوں۔ اس کے بر خلاف بعض حضرات ان روایات کی ایسی تشریح کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسری سے ہم آہنگ ہو جائیں اور تعارض باقی نہ رہے، خواہ کم درجہ کی صحیح یا حسن حدیث کو اصل قرار دے کر اصل حدیث کی خلافِ ظاہر توجیہ کرنی پڑے اور بعض مجتہدین کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس حدیث کو اختیار کر لیتے ہیں جس پر صحابہؓ یا تابعینؒ کا عمل رہا ہو اور دوسری احادیث میں تاویل کرتے ہیں۔

غرض ہر مجتہد کا اندازِ نظر جداگانہ ہے اور ان میں سے کسی کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ اس نے صحیح احادیث کو ترک کر دیا۔ امام ابو حنیفہ عموماً احادیث میں تطبیق کی کوشش فرماتے ہیں اور حتی الامکان ہر حدیث پر عمل کی کو شش کرتے ہیں خواہ سنداً مرجوح ہی کیوں نہ ہو، بلکہ اگر ضعیف حدیث کا کوئی معارض موجود نہ ہو تو اس پر بھی عمل کر تے ہیں، خواہ وہ قیاس کے خلاف ہو، مثلاً نماز میں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جانے، شہد پر زکوٰۃ واجب ہے وغیرہ کے متعدد مسائل میں انہوں نے ضعیف احادیث کی بناء پر قیاس کو ترک کر دیا ہے۔