(7) بعض اوقات ایک حدیث ضعیف ہوتی ہے اور حدیث کے ضعیف ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی سند میں کوئی راوی ضعیف آ گیا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ضعیف راوی ہمیشہ غلط ہی روایت کرے لہٰذا اگر دوسرے قوی قرائن اس کی صحت پر دلالت کر تے ہوں تو اسے قبول کر لیا جاتا ہے، مثلاً اگر حدیث ضعیف ہو لیکن تمام صحابہؓ اور تابعینؒ اس پر عمل کر تے چلے آ رہے ہوں، تو یہ اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ یہاں ضعیف راوی نے صحیح روایت نقل کی ہے، چنانچہ حدیث "لاوصیۃ لوارث" کو اسی بناء پر تمام ائمہ مجتہدین نے معمول بہ قرار دیا ہے۔

بلکہ بعض اوقات اس بناء پر ضعیف روایت کو صحیح سند والی روایت پر ترجیح بھی دے دی جاتی ہے، مثلاً آنحضرتؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کا واقعہ ہے کہ وہ حضرت ابوالعاصؓ کے نکاح میں تھیں، وہ شروع میں کافر تھے، بعد میں مسلمان ہوئے، اب اس میں روایات کا اختلاف ہے کہ انکے اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرتؐ نے سابق نکاح برقرار رکھا تھا یا نیا نکاح کرایا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت میں ہے کہ آپ نے ان کا نکاح کرایا تھا اور مہر بھی نیا مقرر ہوا تھا اور حضرت ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ آپ نے سابق نکاح باقی رکھا تھا، نیا نکاح نہیں کرایا تھا، ان دونوں روایتوں میں سے پہلی روایت ضعیف ہے اور دوسری صحیح ہے لیکن امام ترمذی جیسے محدث نے تعاملِ صحابہؓ کی وجہ سے پہلی روایت کو اسکے ضعف کے باوجود ترجیح دی ہے گرچہ حنفیہ کا موقف قدرے مختلف ہے۔ (دیکھئے جامع ترمذی کتاب النکاح باب الزوجین المشرکین یسلم احدہما)اسی طرح بعض مر تبہ امام ابو حنیفہؒ بھی اس قسم کے قوی قرائن کی بناء پر کسی ضعیف حدیث پر عمل فرما لیتے ہیں، لہٰذا ان کے خلاف بطورِ الزام پیش نہیں کیا جا سکتا۔