امام اعظمؒ کی تصنیف کردہ کتابیں جو آپ کی طرف منسوب ہیں وہ عقائد و کلام کے موضوع پر ہیں مثلاً فقہ اکبر، رسالۃ العالم و المتعلم، مکتوب بنام عثمانؒ البتی، کتاب الرد علی القدریہ، العلم شرقا ً و غربا ً و بعدا ً و قرباً۔

امام ابو حنیفہؒ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ کتابیں تحریر کر کے شیعہ، خوارج اور معتزلہ و مرجیہ کے مقابلہ میں عقیدۂ اہل السنت و الجماعت کو ثابت کیا، امام ابو حنیفہؒ نے اہل سنت کا جو مسلک بتا یا ہے وہ حسبِ ذیل ہیں:

  1. رسول اللہ ﷺ کے بعد افضل الناس ابو بکرؓ ہیں، پھر عمر بن الخطابؓ پھر عثمانؓ، پھرعلیؓبن ابی طالب۔ یہ سب حق پر تھے اور حق کے ساتھ رہے۔
  2. ہم صحابہؓ کا ذ کر بھلائی کے سوا اور کسی طرح نہیں کر تے۔
  3. ہم کسی مسلمان کو کسی گناہ کی بناء پر، خواہ وہ کیسا ہی بڑا گناہ ہو کافر نہیں قرار دیتے جب تک کہ وہ اس کے حلال ہو نے کا قائل نہ ہو۔
  4. ہم مرجیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہماری نیکیاں ضرور مقبول اور ہماری برائیاں ضرور معاف ہو جائیں گی۔
  5. فرائض و اعمال جزء ایمان نہیں ہیں یعنی عقائد و اعمال دونوں الگ الگ شئی ہیں۔ امام صاحب فرائض و اعمال کو جزء یمان نہیں سمجھتے تھے۔ (اس مسئلہ کو ایک معمولی سمجھ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایمان اعتقاد کا نام ہے جو دل سے متعلق ہے فرائض و اعمال جوارح کے کام ہیں اس لئے نہ ان دونوں سے کوئی حقیقت مرکب ہو سکتی ہے نہ ان میں سے ایک دوسرے کا جز ہو سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اگر چہ چنداں مہتم بالشان نہ تھا لیکن اس کے نتائج بہت بڑا اثر رکھتے تھے اسی لحاظ سے امام صاحبؒ نے نہایت آزادی سے اس کا اظہار کیا۔ عمل کو جزء ایمان قرار دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ جو شخص اعمال کا پابند نہ ہو وہ مومن بھی نہ ہو جیسا کہ خارجیوں کا مذہب ہے جو مرتکبِ کبائر کو کافر سمجھتے ہیں۔
  6. الایمان لا یزید ولا ینقص یعنی ایمان کم و بیش نہیں ہوتا ان کے نزدیک جب اعمال جزئِ ایمان نہیں تو اعمال کی کمی بیشی سے ایمان میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی، اور یہ بالکل صحیح ہے حدیث میں آیا ہے کہ ابو بکرؓ کو تم لوگوں پر جو ترجیح ہے و کثرتِ صوم و صلوٰۃ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں پہلے ایمان کی تعلیم دی گئی اس کے بعد پھر اعمال کی۔

غرض امام صاحب کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ایمان بلحاظ کیفیت یعنی شدت و ضعف کے زیادہ و کم نہیں ہو سکتا بلکہ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ایمان مقدار کے اعتبار سے کم و بیش نہیں ہوتا۔ یہ دعویٰ اس بات کی فرع ہے کہ اعمال جزء ایمان نہیں اور اس کو ہم ابھی ثابت کر چکے ہیں۔ یہ عقیدہ اگر چہ امام ابو حنیفہؒ کا اپنا ایجاد کر دہ نہ تھا بلکہ امت کا سوادِ اعظم اس وقت یہی عقیدہ رکھتا تھا، مگر امام نے اسے تحریری شکل میں مر تب کر کے ایک بڑی خدمت انجام دی کیونکہ اس سے عام مسلمانوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ متفرق گروہوں کے مقابلہ میں ان کا امتیازی مسلک کیا ہے۔