امام ابو حنیفہؒ کی رائے میں حضرت علیؓ نے جو لڑائیاں لڑیں ان سب میں حق و صواب حضرت علیؓ کی جانب تھا۔

ایک مرتبہ امام ابو حنیفہؒ سے دریافت کیا گیا کہ آپ یومِ جمل کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں تو انہوں نے کہا۔ "حضرت علیؓ کا رویہ اس میں انصاف پر تھا وہ سب مسلمانوں سے زیادہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ اہل بغی و فساد سے حرب و پیکار کے بارے میں اسلامی لائحہ عمل کیا ہے؟"

امام صاحبؒ نے اپنی زندگی کے باون (52) سال اموی خلافت اور اٹھارہ برس عباسی دور میں بسر کئے گویا آپؒ نے اسلام کی ان دو عظیم سلطنتوں کو بذات خود دیکھا۔ امام صاحبؒ اس ساری صورتِ حال سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

منقول ہے کہ جب حضرت زین العابدین (علیؒ بن حسینؒ) کے بیٹے زیدؒ نے 121ھ میں ہشام بن عبد الملکؒ اموی کے خلاف بغاوت کی تو امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا "زیدؒ کا جہاد کے لئے نکلنا آنحضرت ﷺ کے بدر کے دن نکلنے کے مشابہ ہے۔

اس سے واضح ہو تا ہے کہ آپؒ امویوں کے خلاف بغاوت کو شرعی نقطہ نظر سے جائز سمجھتے تھے۔

122ھ میں زید کے قتل ہو جانے سے ان کی بغاوت ختم ہو گئی۔ 125ھ میں انکے فرزند یحیی خراسان میں آپ کے جانشین ہوئے اور والد کی طرح قتل ہوئے۔ پھر عبداللہ بن یحیی اپنا خاندانی حق لے کر اٹھے اور یمن میں بنو امیہ کے آخری خلیفہ مروان بن محمد کی فوج سے لڑے۔ 130ھ میں آپ نے اپنے آبا ؤ و اسلاف کی طرح شہادت پائی۔

ہشام بن عبد الملکؒ اموی نے 125ھ میں وفات کی۔ اس کے بعد ولید بن یزید، ابراہیم بن ولید، مروان بن محمد یکے بعد دیگرے تخت نشیں ہوئے۔

خلیفہ مروان بن محمد کے عراقی عامل یزید بن عمر بن ہبیرہ نے امام اعظمؒ کو بلا کر محکمہ قضا کے خزانہ کی حفاظت کی ذمہ داری آپ کو تفویض کرنا چاہی در اصل وہ آزمانا چاہتا تھا کہ بنو امیہ سے آپ کی کتنی محبت ہے ابو حنیفہؒ نے انکار کر دیا۔ ابنِ ہبیرہ نے یہ پیشکش نہ قبول کرنے کی صورت میں زد و کوب کا حلف اٹھایا پھر امام صاحبؒ کو قید کر دیا اور جلاد کو کوڑے مارنے کا حکم دیا۔ جلاد متواتر کئی روز تک کوڑے مارتا رہا۔ مجبوراً ابنِ ہبیرہ نے رہائی کا حکم دیا۔ امام صاحبؒ رہا ہوئے اور سوار ہو کر مکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ 130ھ کا واقعہ ہے۔ عباسی خلافت قائم ہونے تک آپ مکہ میں اقامت پذیر رہے اور خلیفہ ابو جعفر منصور کے عہد خلافت میں کوفہ آئے۔

132ھ میں سلطنتِ اسلام نے دوسرا پہلو بدلا۔ یعنی بنوامیہ کا خاتمہ ہو گیا۔ عباسیوں نے خلفائے بنو امیہ کی قبریں اکھڑوا کر ان کی ہڈیاں تک جلا دیں پھر کیا تھا آلِ عباس تاج و تخت کے مالک ہوئے۔ اس خاندان کا پہلا فرماں روا ابو العباس سفاح تھا۔ اس نے چار برس کی حکومت کے بعد 136ھ میں وفات پائی۔ سفاح کے بعد اس کا بھائی منصور تخت نشین ہوا۔

پھر جب تک علویوں اور عباسیوں میں خصومت کا آغاز نہ ہوا، امام صاحبؒ خاموش رہے۔ مگر جب علویوں اور عباسیوں میں ٹھن گئی تو آپؒ نے علویوں کی تائید کی چنانچہ جب ابراہیمؒ نے منصور کے خلاف خروج کیا تو آپ کا میلان ابراہیم کی جانب تھا۔ حماد بن اعین کا بیان ہے ابو حنیفہؒ لوگوں کو ابراہیمؒ کی مدد پر ابھار تے تھے۔

ادھر منصور کے بد باطن خواص و امراء امام صاحبؒ کے خلاف اشتعال انگیزی اور تنفر کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرتے تھے۔

خطیب بغدادی ابو یوسفؒ سے روایت کرتے ہیں۔ ربیع جو خلیفہ منصور کا عرض بیگی تھا، امام ابو حنیفہؒ سے عداوت رکھتا تھا ایک دن خلیفۂ منصور نے امام ابو حنیفہؒ کو طلب کیا۔ ربیع بھی حاضر تھا، منصور سے کہا یا امیر ا لمؤمنین! یہ شخص آپ کے دادا یعنی عبد اللہ بن عباسؓ کی مخالفت کر تا ہے اس طرح کہ عبد اللہ بن عباسؓ فرما تے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھا لے اور دو ایک روز کے بعد انشاء اللہ کہہ لے تو یہ استثنا قسم میں داخل سمجھا جائے گا اور قسم کا پورا کرنا کچھ ضروری نہ ہو گا۔ یہ ابو حنیفہؒ اس کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انشاء اللہ کا لفظ قسم کے ساتھ ہو تو البتہ جزئِ قسم سمجھا جائیگا ورنہ لغو اور بے اثر ہے۔

امام صاحبؒنے کہا امیر المؤمنین! ربیع کا خیال ہے کہ لوگوں پر آپ کی بیعت کا کچھ اثر نہیں ہے۔ منصور نے کہا یہ کیونکر؟ امام صاحبؒ نے کہا ان کا گمان ہے کہ جو لو گ دربار میں آپ کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کرتے ہیں اور قسم کھا تے ہیں، گھر پر جا کر انشاء اللہ کہہ لیا کرتے ہیں جس سے قسم بے اثر ہو جاتی ہے اور ان پر شرعاً کچھ مواخذہ نہیں رہتا۔ خلیفہ منصور ہنس پڑا اور ربیع سے کہا کہ تم ابو حنیفہ کو نہ چھیڑا کرو۔ ان پر تمہارا داؤ نہیں چل سکتا۔

امام صاحبؒ دربار سے نکلے تو ربیع نے اُن سے کہا "تم میرا خون کر نا چاہتے تھے؟" امام صاحبؒ نے فرمایا نہیں تم ہی میرا خون بہانا چاہتے تھے۔ میں نے تمہیں بھی بچا لیا اور خود بھی بچ گیا۔ پھر امام صاحبؒ نے اپنے قریب والوں سے فرمایا یہ آدمی مجھے باندھنا چاہتا تھا مگر میں نے اسے ہی باندھ دیا۔

ابو العباس جو منصور کے دربار میں معزز درجہ رکھتا تھا۔ امام صاحبؒ کا دشمن تھا اور ہمیشہ ان کو ضرر پہنچانے کی فکر میں رہتا تھا۔ ایک دن امام صاحبؒ کسی ضرورت سے دربار میں گئے۔ اتفاق سے ابوالعباس بھی حاضر تھا۔ لوگوں سے کہا آج ابو حنیفہؒ میرے ہاتھ سے بچ کر نہیں جا سکتے۔ امام صاحبؒ کی طرف مخاطب ہوا اور کہا کہ "ابو حنیفہؒ! امیر المؤمنین یعنی خلیفہ منصور کبھی کبھی ہم لوگوں کو بلا کر حکم دیتے ہیں کہ اس شخص کی گردن مار دو۔ ہم کو مطلق معلوم نہیں ہوتا کہ وہ شخص واقعی مجرم ہے یا نہیں۔ ایسی حالت میں ہم کو اس حکم کی تعمیل کرنی چاہئے یا انکار کر دینا چاہے؟

امام صاحبؒ نے کہا"تمہارے نزدیک خلیفہ کے احکام حق ہو تے ہیں یا باطل؟" منصور کے سامنے کس کی تاب تھی کہ احکام خلافت کی نسبت ناجائز ہونے کا احتمال ظاہر کر سکتا۔ ابو العباس کو مجبوراً کہنا پڑا کہ حق ہوتے ہیں۔ امام صاحبؒ نے فرمایا تو پھر حق کی تعمیل میں پوچھنا کیا؟ پھر امام صاحبؒ نے اپنے قریب والوں سے فرمایا یہ آدمی مجھے باندھنا چاہتا تھا مگر میں نے اسے ہی باندھ دیا۔

جب خلیفہ منصور نے قضا کے عہدہ کی پیشکش کی تو امام صاحبؒ نے صاف انکار کر دیا تھا اور کہا کہ "میں اس کی قابلیت نہیں رکھتا۔" منصور نے غصہ میں آ کر کہا "تم جھوٹے ہو۔" امام صاحب نے کہا "اگر میں جھو ٹا ہوں تو یہ دعوی ضرور سچا ہے کہ میں عہدۂ قضا کے قابل نہیں کیونکہ جھوٹا شخص قاضی نہیں مقرر ہو سکتا۔

بہرحال اہل بیت کی طرف آپ کا صرف سیاسی میلان ہی نہ تھا بلکہ ان سے علمی تعلق بھی رکھتے تھے۔ مثلا حضرت زید بن علی، زین العابدینؒ المتوفی 122ھ سے آپ کا علمی رابطہ تھا اور وہ آپ کے اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔

آپؒ محمد باقرؒ اور جعفر صادقؒ سے روایت کر چکے ہیں جیسا کہ مسند ابی حنیفہؒ کے مطالعہ سے واضح ہو تا ہے۔

آخر کار آپ کا خاتمہ بھی حب اہل بیت، زہد و تقوی اور حق و صداقت سے وابستگی پر ہوا۔

اہل بیت سے میلان و محبت کے با وجود صحابہؓ سے بڑا حسنِ ظن تھا چنانچہ حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ کو صفِ اول میں جگہ دیتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے حق میں بر سرِ عام شہرِ کوفہ میں دعاء رحمت کیا کرتے تھے۔ (حیات حضرت امام ابو حنیفہؒ)

ایک بار کسی نے سوال کیا کہ حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کی لڑائیوں کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟ فرمایا "قیامت میں جن باتوں کی پرسش ہو گی مجھ کو ان کا ڈر لگا رہتا ہے ان واقعات کو خدا مجھ سے نہ پوچھے گا اس لئے ان پر توجہ کر نے کی چنداں ضرورت نہیں۔"

خیر القرون میں مسلمانوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے ان کو اسلام کا ایک ضروری مسئلہ قرار دینا اور ا س پر بحثوں کا دفتر تیار کرنا ایک فضول کام ہے۔ اسی کی طرف امام صاحبؒ نے اشارہ کیا ہے۔