اسماعیل بن محمد فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی بیوی کی طلاق میں شک ہوا۔ میں نے قاضی شریکؒ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو طلاق دے دو پھر رجوع کرو اور رجوع کرنے پر گواہ بنا لو۔ پھر میں سفیان ثوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے بھی یہی پوچھا تو انہوں نے فرمایا اگر تم نے طلاق دے بھی دی ہے تو اب رجعت ہو گئی۔ پھر میں نے زفر بن ہذیلؒ سے معلوم کیا، انہوں نے فرمایا جب تک تم کو طلاق کا یقین نہ ہو جائے وہ تمہاری بیوی ہے۔ اس کے بعد امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سب فتاویٰ نقل کئے۔ امام صاحب نے فرمایا سفیان ثوری نے ورع اور پرہیز گاری کا فتویٰ دیا، زفر بن ہذیل کا فتویٰ فقہی فتویٰ ہے اور شریک کا فتویٰ ایسا ہے، جیسے تم کسی سے کہو کہ مجھے معلوم نہیں میرے کپڑے پر پیشاب گرا کہ نہیں تو وہ کہہ دے اب تم اس پر پیشاب کر دو پھر دھو لینا۔