عبد اﷲ بن مبارکؒ سے روایت ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ سے یہ مسئلہ معلوم کیا کہ دو آدمی ہیں ایک کے پاس ایک درہم ہے اور دوسرے کے پاس دو درہم۔ یہ سب دراہم آپس میں مل گئے اور دو درہم کھو گئے۔ کچھ پتہ نہیں کون سے درہم کھو گئے ہیں؟ امام صاحبؒ نے فرمایا بقیہ درہم دونوں کا ہے۔ دو درہم والے کے دو حصہ، ایک درہم والے کا ایک حصہ۔ عبد اﷲ بن مبارک فرماتے ہیں کہ پھر میں نے ابن شبرمہ سے ملاقات کی اور یہی مسئلہ معلوم کیا۔ انہوں نے فرمایا کسی اور سے بھی معلوم کیا؟ عرض کیا ہاں ابو حنیفہؒ سے، تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ جو درہم بچ رہا ہے اس کا دو ثلث دو درہم والے کا، ایک ثلث ایک درہم والے کا ہے۔ اس پر ابن شبرمہ نے فرمایا ان سے غلطی ہو گئی۔ دیکھو جو دو درہم ضائع ہوئے ان میں سے ایک تو ضرور دو درہموں میں سے ہے یعنی جس کا دو درہم تھا اس کا تو ایک ضرور ضائع ہوا ہے۔ باقی دوسرا ضائع ہونے والا درہم ان دونوں کا ہو سکتا ہے۔ لہذا جو ایک درہم باقی رہا، وہ دونوں کا نصف نصف ہے۔ عبد اﷲ بن مبارک فرماتے ہیں مجھے یہ جواب بہت ہی اچھا معلوم ہوا۔

اس کے بعد امام ابو حنیفہؒ سے ملاقات ہوئی۔ ان کی عجیب ہی شان تھی۔ اگر ان کی عقل کو نصف دنیا کی عقل سے تولا جائے تو بڑھ جائے۔ وہ مجھ سے فرمانے لگے تم ابن شبرمہ سے ملے اور انہوں نے جواب دیا ہو گا کہ ضائع ہونے والا دو درہموں میں سے ایک ضرور ہے اور بچا ہوا درہم ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، تو امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا دیکھو جب تینوں درہم مل گئے تو آپس میں شرکت واجب ہو گئی پھر ایک درہم والے کا حصہ ہر درہم کا ثلث ہو گیا اور دو درہم والے کا حصہ ہر درہم میں دو ثلث ہوا تو جو درہم بھی کھو گیا دونوں کا کھویا گیا اور دونوں کا حصہ گیا۔