قاضی ابویوسفؒ کے لئے جو ہدایت نامہ لکھا تھا اُس تحریر میں پہلے سلطانِ وقت کے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔

چنانچہ لکھتے ہیں"بادشاہوں کے پاس بہت کم آمدورفت رکھنا جب تک کوئی خاص ضرورت نہ ہو دربار میں نہ جانا کہ اپنا اعزاز و وقار قائم رہے۔ بادشاہ اگر تم کو عہدہ قضا پر مقرر کرنا چاہے تو پہلے دریافت کر لینا وہ تمہارے اجتہاد سے موافق ہے یا نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ سلطنت کے دباؤ سے تم کو اپنی رائے کے خلاف عمل کرنا پڑے جس عہدہ اور خدمت کی تم میں قابلیت نہ ہو ہرگز قبول نہ کرنا۔

اگر کوئی شخص شریعت میں کسی بدعت کا موجد ہو تو علانیہ اس کی غلطی کا اظہار کرنا کہ اور لوگوں کو اس کی تقلید کی جرأت نہ ہو اس بات کی کچھ پرواہ نہ کرنا کہ وہ شخص جاہ و حکومت رکھتا ہے کیونکہ اظہارِ حق میں خدا تمہارا مددگار ہو گا اور وہ اپنے دین کا آپ محافظ و حامی ہے۔ خود بادشاہ سے اگر نامناسب حرکت صادر ہو تو صاف یہ کہہ دینا کہ آپ کو آپ کی غلطی پر مطلع کر دینا میرا فرض ہے پھر بھی نہ مانے تو تنہائی میں سمجھانا کہ آپ کا یہ فعل قرآن مجید اور احادیث نبوی کے خلاف ہے اگر سمجھ گیا تو خیر، ورنہ خدا سے دعا کر نا کہ اس کے شر سے تم کو محفوظ رکھے۔