قاضی ابو القاسم نے مکی بن ابراہیم سے روایت کی کہ "میں اہلِ کوفہ کے پاس اٹھا بیٹھا ہوں، مگر میں نے ابو حنیفہ سے بڑھ کر پرہیز گار کسی کو نہیں دیکھا۔

قاضی ابو عبد اللہ صمیری نے حسن بن صالح سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا "امام ابو حنیفہ بڑے پرہیز گار اور حرام سے بیحد محتاط رہتے تھے، بہت سے حلال مال کو بھی شبہ کی بناء پر چھو ڑ دیتے تھے۔"

نضر بن محمد فرماتے ہیں کہ "میں نے ابو حنیفہ سے بڑھ کر پرہیزگار کسی کو نہیں دیکھا۔"

یزید بن ہارون سے روایت ہے کہ "میں نے ایک ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا۔ خدا کی قسم ان میں ابو حنیفہ سے بڑا پرہیز گار اور اپنی زبان کی حفاظت کر نے والا کسی کو نہیں دیکھا۔"

ابو القاسم قشیریؒ سے منقول ہے کہ "امام ابو حنیفہ اپنے قرضدار کے درخت کے سایہ میں بھی نہیں بیٹھتے تھے کہ جس قرض سے کوئی بھی نفع ہو، وہ سود ہے۔"

ابو المؤید خوارزمی نے یزید بن ہارون سے روایت کی ہے کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر پرہیز گار نہیں دیکھا۔ ایک دن میں نے ان کو دھوپ میں ایک آدمی کے دروازہ کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں نے عرض کیا کہ "کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ سایہ میں ہو جاتے؟ فرمایا اس گھر والے پر میرے کچھ دراہم قرض ہیں، میں پسند نہیں کرتا کہ اس کے گھر کی دیوار کے سایہ میں بیٹھوں۔ یزید بن ہارون فرماتے ہیں کہ کون سی پرہیز گاری اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔"

عبد اللہ بن مبارک سے مر وی ہے کہ میں کوفہ میں داخل ہوا اور لوگوں سے معلوم کیا کہ سب سے بڑا زاہد کون ہے؟ تو لوگوں نے بتایا "امام ابو حنیفہؒ۔"

ایک مر تبہ عبد اللہ بن مبارکؒ سے ابو حنیفہؒ کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا "ان جیسا کون ہو سکتا ہے؟ انکا امتحان کوڑوں سے ہوا تو انہوں نے صبر کیا۔"

حسن بن زیاد سے روایت ہے کہ "خدا کی قسم امام ابو حنیفہ نے امراء و سلاطین میں سے کسی قسم کا انعام یا ہدیہ قبول نہیں فرمایا۔"

زید بن زرقاؒء سے روایت ہے کہ "ایک آدمی نے امام ابو حنیفہؒ سے کہا کہ تمہارے اوپر دنیا پیش ہو رہی ہے اور تمہارے بال بچے ہیں پھر تم قبول کیوں نہیں کرتے؟ امام صاحب نے فرمایا بال بچوں کے لئے اللہ کافی ہے۔ وہ اللہ کے فرماں بردار ہوں تو بھی، نا فرماں ہوں تو بھی۔ اللہ کا رزق فرماں بردار اور نافرمان سب کے لئے صبح شام آتا رہتا ہے۔" پھر یہ آیت تلاوت فرمائی "وفی السماء رزقکم وما توعدون" اور آسمان میں تمہاری روزی ہے اور وہ چیز ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔