امام صاحب کی کرم گستری

امام ابو یوسفؒ سے روایت ہے کہ "امام حنیفہؒ جس کو پہچانتے تھے، اس پر بہت زیادہ احسان کرتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے کسی کو پچاس اشرفی سے کم عنایت نہ کرتے۔ اگر وہ لوگوں کے سامنے شکریہ ادا کرتا تو ان کو رنج ہوتا تھا اور فرماتے تھے کہ اﷲ کا شکر ادا کرو اس لئے کہ یہ اﷲ ہی کا رزق ہے اسی نے تیری طرف بھیجا ہے۔

شقیق بن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ "میں ایک مرتبہ امام صاحب کے ساتھ تھا، وہ ایک مریض کی عیادت کے لئے جا رہے تھے، ادھر سے ایک آدمی آ رہا تھا اس نے امام صاحبؒ کو دور سے دیکھا تو چھپ گیا اور دوسرے راستہ پر چل پڑا امام صاحبؒ نے اس کا نام لے کر زور سے پکارا اے فلاں! وہ راستہ چل، جس پر چل رہا تھا، دوسرا راستہ مت اختیار کر۔ اس آدمی کو معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہؒ نے اس کو دیکھ لیا ہے تو شرمندہ ہو کر کھڑا ہو گیا، جب امام صاحبؒ اس کے پاس پہنچے تو پوچھا "تم نے وہ راستہ کیوں چھوڑا جس پر تم چل رہے تھے؟" اس آدمی نے عرض کیا کہ آپ کے دس ہزار درہم میرے اوپر قرض ہیں اور مدت لمبی ہو گئی میں ادا نہیں کر سکا۔ وعدہ خلافی ہوئی، آپ کو دیکھ کر میں شرما گیا۔ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا سبحان اﷲ! یہاں تک نوبت آ گئی کہ آپ مجھے دیکھیں تو چھپ جائیں، میں نے یہ ساری رقم آپ کو بخش دی اور میں خود اپنے اوپر شاہد ہوں اب خبردار مجھ سے مت چھپنا اور میری طرف سے جو کچھ تمہارے قلب میں آگیا اس کو معاف کر دو۔ شقیق فرماتے ہیں اس وقت مجھے مکمل یقین ہو گیا کہ یہ حقیقی زاہد ہیں۔"

زائدہ بن حسنؒ سے روایت ہے کہ "میرے والد محترم نے امام ابو حنیفہؒ کو ایک رومال ہدیہ کیا جس کو تین اشرفیوں میں خریدا تھا۔ امام صاحب نے قبول فرما لیا اور ان کو ایک ریشمی کپڑا ہدیہ کیا جس کی قیمت 50 درہم تھی۔"

زکریا بن عدی سے روایت ہے کہ "عبید اﷲ بن عمرو الرقی نے امام ابو حنیفہؒ کو کچھ میوے ہدیہ کئے امام صاحب نے ان کے پاس ہدیہ میں بہت سا قیمتی سامان روانہ فرمایا۔"

عبد اﷲ بن بکر اسہمی سے روایت ہے کہ اونٹ والے نے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے راستہ میں مجھ سے کچھ مخاصمت کی اور کھینچ کر امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں لے گیا۔ انہوں نے ہم دونوں سے سوال کیا ہم دونوں کے جواب مختلف تھے۔ امام صاحب نے فرمایا اختلاف کتنے میں ہے اونٹ والے نے کہا چالیس درہم میں امام صاحب نے فرمایا لوگوں کی مروت ختم ہو گئ، پھر امام ابو حنیفہؒ نے اونٹ والے کو چالیس درہم عنایت کر دیئے۔

یحیٰ بن خالد سے روایت ہے کہ "ابراہیم بن عینیہ کو اس وجہ سے قید کر دیا گیا تھا کہ ان پر لوگوں کا قرض ہو گیا تھا، ابراہیم اسی حالت میں امام ابو حنیفہؒ کے پاس آئے، امام صاحب نے ان سے معلوم کیا "قرض کتنا ہے؟" بتلایا کہ چار ہزار درہم سے زیادہ، امام صاحب نے پوچھا کسی سے کچھ لیا تو نہیں؟ عرض کیا "لیا ہے" امام صاحب نے فرمایا "اس کو واپس کر دو، میں تمہارا سارا قرض ادا کرتا ہوں۔

"ابو محمد حارثیؒ نے غورک السعدی کوفی سے روایت کی ہے کہ میں نے ابو حنیفہؒ کو ہدایا پیش کئے، انہوں نے کئی گنا بدلے میں عنایت فرمایا۔ میں نے عرض کیا اگر مجھے علم ہوتا کہ آپ ایسا کریں گے تو میں یہ کام نہیں کرتا اس پر امام صاحب نے فرمایا "الفضل للمتقدم" اور کیا تم نے آپ ﷺ کا یہ فرمان نہیں سنا "من صنع الیکم معروفاً فکافؤہ" (جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے اس کو بدلہ دیدیا کرو) میں نے عرض کیا یہ حدیث میرے نزدیک پوری دولت سے بہتر اور محبوب ہے۔"

وکیع بن جراحؒ سے روایت ہے کہ "امام ابو حنیفہؒ کے پاس ایک آدمی آیا، اور کہنے لگا "مجھے دو کپڑوں کی ضرورت ہے آپ میرے ساتھ احسان کریں میں ان کپڑوں کو پہن کر اپنی شکل اچھی بناؤں گا کیوں کہ ایک آدمی مجھ کو اپنی دامادی میں لینا چاہتا ہے، ، ۔ امام صاحبؒ نے فرمایا دس دن ٹھہرو، وہ دس دن کے بعد آیا، امام صاحب نے فرمایا کل آنا، وہ اگلے دن آیا۔ امام صاحب نے اس کے لئے وہ کپڑے نکالے جن کی قیمت بیس اشرفیوں سے زائد تھی، ان کے ساتھ ایک اشرفی بھی تھی۔ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ تیرے نام کا سامان بغداد بھیجا تھا، وہ سامان بیچا گیا، یہ دونوں کپڑے اور ایک دینار اس سے نفع ہوا، اصل مال بھی آگیا، اگر تم اس کو قبول کرتے ہو تو بہتر ہے ورنہ میں اس کو بیچ کر اس کی قیمت اور اشرفی تمہارے نام پر صدقہ کر دوں گا۔"

امام ابویوسفؒ سے روایت ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ ابو حنیفہؒ کو اﷲ تعالیٰ نے علم و عمل، سخاوت، کرم گستری اور قرآنی اخلاق سے زینت دی ہے۔