امام صاحبؒ نے شیوخ و محدثین کے لئے تجارت کا ایک حصہ مخصوص کر دیا تھا۔ اس سے جو نفع ہوتا تھا سال کے سال ان لوگوں کو پہنچا دیا جاتا تھا۔

امام ابو حنیفہؒ بغداد میں نقود بھیجتے تھے۔ اس سے سامان خرید کر کوفہ لایا جاتا اور بیچا جاتا تھا۔ اس سے جو نفع ہوتا اس کو جمع کرتے پھر محدثین کرام کی ضروریات، کپڑے، کھانے کی چیزیں خرید کر انہیں ہدیہ کرتے۔ بعد میں بچی ہوئی رقم نقد کی صورت میں پیش کرتے اور فرماتے کہ صرف اﷲ کی تعریف کریں میری نہیں اس لئے کہ میں نے اپنے مال میں سے کچھ نہیں دیا ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے دیا ہے جو اس نے مجھ پر کیا۔ بخدا یہ آپ لوگوں کی امانت ہے جس کو اﷲ رب العزت میرے ہاتھوں آپ لوگوں تک پہنچا رہا ہے۔

وکیع بن جراح سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ چالیس سال سے میرا دستور یہ ہے کہ جب چار ہزار درہم سے زیادہ کا مالک ہو جاتا ہوں تو زیادتی کو خرچ کر دیتا ہوں۔ اس کو اس لئے روکتا ہوں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ "چار ہزار درہم اور اس سے کم نفقہ ہے۔" اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں لوگوں کا محتاج ہو جاؤں گا تو ایک درہم بھی اپنے پاس نہ روکتا۔

امام ابو یوسفؒ سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ سے جب کسی حاجت کا سوال کیا جاتا وہ پوری فرماتے۔ اسماعیل بن حماد بن ابو حنیفہؒ سے روایت ہے کہ جب حمادؒ (امام صاحب کے بیٹے) نے الحمد شریف مکمل کی تو معلم کو پانسو (500) درہم انعام بھیجے۔ معلم کو جب رقم پہنچی تو اس نے کہا میں نے کیا کیا ہے جو اتنی بڑی رقم انعام میں دی؟ امام صاحبؒ کو خبر ہوئی تو خود حاضرِ خدمت ہوئے اور فرمایا بزرگوار! جو کچھ آپ نے میرے بچے کو پڑھا دیا اس کو حقیر مت سمجھئے۔ میرے پاس اگر اس سے زیادہ ہوتا تو قرآن کریم کی تعظیم میں اور زیادہ پیش کرتا۔

سفیان بن عیینہ سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کثیر الصیام و الصدقات تھے جو مال بھی ان کو نفع ہوتا تھا، اس کو خرچ کر دیتے تھے۔ میرے پاس ایک مرتبہ بہت زیادہ ہدیہ بھیجا۔ اتنا زیادہ کہ مجھ کو اس کی زیادتی سے وحشت ہوئی۔ میں نے ان کے بعض ساتھیوں سے شکایت کی۔ انہوں نے کہا یہ کیا ہے اگر آپ ان تحائف کو دیکھتے جو انہوں نے سعید بن عروبہؒ کو بھیجے تھے تو ہرگز تعجب نہ کرتے۔ پھر فرمایا کہ کوئی محدث ایسا نہیں تھا جس کے ساتھ آپؒ بے پناہ احسان نہ کرتے ہوں۔

مسعر بن کدامؒ سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا دستور تھا کہ جب اپنے اہل و عیال کے لئے کچھ خریدتے تو اتنا ہی کبارِ علماء پر خرچ کرتے اور جب اہل و عیال کے لئے کپڑا خریدتے تو علمائے مشائخ کے لئے بھی اتنی ہی مقدار خریدتے اور جب پھلوں اور کھجوروں کا موسم آتا تو جو چیز اپنے اور اہل و عیال کے لئے خریدنے کا ارادہ کرتے پہلے علماء و مشائخ کے لئے اتنا ہی خرید لیتے جتنا بعد میں اپنے لئے خریدتے۔