قاضی ابو یوسفؒ (یعقوب بن ابراہیم ) بن حبیب انصاری، کوفہ میں پیدا ہوئے۔ وہیں تعلیم پائی اور کوفہ میں سکونت پذیر رہے۔ آپ عربی النسل تھے۔ موالی میں سے نہ تھے۔ 133ھ میں ولادت ہوئی اور 182ھ میں وفات پائی۔

آپ بچپن میں بہت غریب تھے۔ ابو حنیفہؒ کی مالی امداد سے آپ نے تعلیم حاصل کی۔

امام ابن جریر طبریؒ لکھتے ہیں "قاضی ابو یوسفؒ بڑے فقیہ عالم اور حافظ تھے حفظِ حدیث میں بڑی شہرت رکھتے تھے محدث کے یہاں حاضر ہو تے اور پچاس یا ساٹھ احادیث تک یاد کر لیتے پھر کھڑے ہو کر املا کرا دیتے۔ بڑے کثیر الحدیث تھے۔ آپ تین خلفاء خلیفہ مہدی، ہادی اور ہارون رشید کے قاضی رہے۔

جب امام ابو یوسف نے الگ حلقۂ درس قائم کر لیا

ایک مرتبہ امام صاحبؒ نے امام ابو یوسفؒ کے بارے میں لوگوں سے معلومات کیں تو لوگوں نے بتلایا کہ انہوں نے اپنا حلقۂ درس الگ قائم کر لیا ہے۔

امام صاحبؒ نے ایک معتبر آدمی کو بلایا کہ ابو یوسفؒ کی مجلس میں جاؤ اور یہ مسئلہ معلوم کرو کہ ایک آدمی نے ایک دھوبی کو کپڑا دیا کہ دو درہم میں اس کو دھو کر دے۔ کچھ دنوں کے بعد جب دھوبی کے پاس کپڑا لینے گیا تو دھوبی نے کپڑے ہی کا انکار کر دیا اور کہا تمہاری کوئی چیز میرے پاس نہیں۔ وہ آدمی واپس آگیا پھر دوبارہ اس کے پاس گیا اور کپڑا طلب کیا تو دھوبی نے دھلا ہوا کپڑا اسے دے دیا۔ اب دھوبی کو دھلائی کی اجرت ملنی چاہئے یا نہیں۔ اگر وہ کہیں ہاں تو کہنا آپ سے غلطی ہو ئی اور اگر کہیں اس کو مزدوری نہیں ملے گی تو بھی کہنا غلط ہے۔

وہ آدمی امام ابو یوسفؒ کی مجلس میں گیا اور مسئلہ معلوم کیا۔ امام ابو یوسفؒ نے فرمایا اس کی اجرت واجب ہے اس آدمی نے کہا غلط۔ امام ابو یوسفؒ نے غور کیا پھر فرمایا نہیں اس کو اجرت نہیں ملے گی۔ اس آدمی نے پھر کہا غلط۔ امام ابو یوسفؒ فوراً اٹھے امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں پہنچ گئے۔

امام صاحبؒ نے فرمایا معلوم ہو تا ہے کہ آپ کو دھوبی کا مسئلہ لایا ہے۔ ابو یوسف نے عرض کیا جی ہاں۔ امام صاحب نے فرمایا سبحان اللہ جو شخص اس لئے بیٹھا ہو کہ لوگوں کو فتویٰ دے۔ اس کام کے لئے حلقۂ درس جما لیا، اللہ تعالیٰ کے دین میں گفتگو کرنے لگا اور اس کا مرتبہ یہ ہے کہ اجارہ کے ایک مسئلہ کا صحیح جواب نہیں دے سکتا۔ ابو یوسفؒ نے عرض کیا استاذِ محترم! مجھے بتلا دیجئے۔ امام صاحبؒ نے فرمایا اگر اس نے دینے سے انکار کے بعد دھویا ہے تو اجرت نہیں کیونکہ اس نے اپنے لئے دھویا ہے اور اگر غصب سے پہلے دھویا تھا، تو اس کو اجرت ملے گی اس لئے کہ اس نے مالک کے لئے دھو یا تھا۔

قاضی ابو یوسفؒ امام ابو حنیفہؒ کے پہلے شاگرد ہیں۔ جنہوں نے فقہ حنفی میں تصنیفات کیں جن میں انہوں نے اپنے اور اپنے استاذ امام ابو حنیفہؒ کے افکار و نظریات کو مدون کیا ہے۔ مختلف علوم میں ان کی تصنیفات بہت ہیں، ابن الندیم لکھتے ہیں کہ ابو یوسفؒ کی تصانیف یہ ہیں:

  1. کتاب الصلاۃ
  2. کتاب الزکوۃ
  3. کتاب الصیام
  4. کتاب الفرائض
  5. کتاب البیوع
  6. کتاب الحدود
  7. کتاب الوکالۃ
  8. کتاب الوصایا
  9. کتاب الصید و الذبائح
  10. کتاب الغضب و الاستبراء
  11. کتاب اختلاف الامصار
  12. کتاب الرد علی مالک بن انس
  13. مسائلِ خراج پر مشتمل ایک مکتوب بنام ہارون الرشید، کتاب الجوامع جو آپ نے یحی بن حامدؒ کے لئے تصنیف کی یہ چالیس کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس میں انہوں نے لوگوں کے اختلاف اور قابل عمل رائے کا ذکر کیا ہے۔

یہ ابن ندیمؒ کا بیان ہے لیکن انہوں نے بعض کتابوں کا ذکر نہیں کیا۔ ان کتابوں میں امام ابو حنیفہؒ کے افکار و نظریات اور ان کی طرف سے دفاع پر مشتمل ہیں اور وہ کتابیں یہ ہیں:کتاب الآثار، اختلاف ابن ابی لیلی، الرد علی سیر الاوزاعی، کتاب الخراج۔