یہ سب سے اخیر تصنیف ہے اور جب "سیر صغیر" لکھی تو اس کا ایک نسخہ امام اوزاعیؒ کی نظر سے گزرا۔ انہوں نے طعن سے کہا کہ اہلِ عراق کو فن سیر سے کیا نسبت!

امام محمدؒ نے سنا تو "سیر کبیر" لکھنی شروع کی، تیار ہو گئی تو ساٹھ جزوں میں آئی امام محمدؒ اس ضخیم کتاب کو گھوڑے پر رکھوا کر ہارون رشید کے پاس لے گئے۔ ہارون رشید کو پہلے سے خبر ہو چکی تھی۔ اس نے قدردانی کے لحاظ سے شہزادوں کو بھیجا کہ خود جا کر امام محمدؒ کا استقبال کریں اور ان سے اس کی سند لیں۔