’’ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘ اُمتِ اسلامیہ ہند کے لئے اﷲ کی طرف سے اتنی بڑی نعمت ہے کہ عالم اسلام کے مسلمان بھی اسے رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، یہ اس ملک میں مسلمانوں کی وحدت کا نشان ہے، جس کے سایہ میں مسلمانوں کے تمام فرقے، جماعتیں اور تنظیمیں جمع ہیں۔


بورڈ کا بنیادی مقصد شریعتِ اسلامی کا تحفظ ہے، تحفظ شریعت کی یہ تحریک تین پہلوؤں سے کام کر رہی ہے، ایک قانونی پہلو سے، اس کے لئے عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کی جاتی ہے اور سیاسی کوششوں کے ذریعہ مخالف شریعت قانون کی تنسیخ اور شریعت کے موافق قانون کے اجراء کی سعی کی جاتی ہے، دوسری جہت مسلمانوں کی ذہن سازی کی ہے، کہ وہ رضا کارانہ طور پر اپنی سماجی زندگی کو شریعت کے سانچہ میں ڈھالیں ؛ کیوں کہ شریعت کا اصل تحفظ یہی ہے کہ ہماری عملی زندگی کا رشتہ اس سے قائم رہے، تیسرا پہلو قانون شریعت کی تفہیم کا ہے، یعنی مسلمانوں کو بھی اور برادرانِ وطن کو بھی یہ حقیقت سمجھائی جائے کہ شریعتِ اسلامی پوری طرح عقل و مصلحت کے مطابق اور قانون فطرت سے ہم آہنگ ہے، گذشتہ چند سال سے اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور اس کے بہتر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔


اس سلسلہ میں بار بار خواتین کے مالی حقوق اور خاص کر حق میراث کے سلسلہ میں آواز اٹھائی جاتی ہے، چنانچہ مخدومی امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب دامت برکاتہم جنرل سکریٹری بورڈ نے اس حقیر کو حکم فرمایا کہ ایک رسالہ خاص اس موضوع پر مرتب کر دیا جائے، تاکہ خواتین کے حقوق اور اس سلسلہ میں قانون شریعت کی مصلحتیں اچھی طرح واضح ہو جائیں، یہ رسالہ اسی حکم کی تعمیل ہے۔


اس رسالہ کو بحیثیتِ مجموعی میں نے چار مختصر ابواب میں تقسیم کیا ہے، پہلے باب میں میراث اور ہبہ و وصیت سے متعلق خواتین کے حقوق کا ذکر ہے، اس میں راقم الحروف نے مختلف حالتوں میں خواتین کے حق میراث کے سلسلہ میں، مصری نژاد فاضل ڈاکٹر صلاح الدین سلطان ( مشیر مذہبی امور، بحرین ) کے رسالہ ’’ میراث المرأۃ وقضیۃ المساواۃ‘‘ سے خاص طور پر استفادہ کیا ہے، نیز یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ بعض صورتوں میں خواتین کے حقوق کا کم ہونا محض جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ذمہ داریوں کی نسبت سے حقوق کی تعیین ہے۔


دوسرے باب میں نفقہ سے متعلق بحث ہے ؛ کیوں کہ قانونِ شریعت اور قانونِ نفقہ ایک دوسرے سے مربوط ہے، اس کو سمجھے بغیر بعض صورتوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان میراث میں تفاوت کی حکمت کو نہیں سمجھا جا سکتا، تیسرے باب میں مہر کی اہمیت، مقدار مہر کے سلسلہ میں شریعت کا نقطۂ نظر اور بعض دیگر احکام کو ذکر کیا گیا ہے —- یہ بات ظاہر ہے کہ شریعت میں بنیادی طور پر کسبِ معاش کی ذمہ داری مردوں سے متعلق کی گئی ہے ؛ لیکن شوہر کی اجازت سے شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ کس حد تک خواتین کسبِ معاش کے مواقع سے استفادہ کر سکتی ہیں ؟ چوتھا حصہ اسی عنوان پر ہے ؛ کیوں کہ یہ بھی مالی حقوق کا ایک شعبہ ہے، اس باب میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسلام نے جو گھر کے باہر کی ذمہ داریاں مردوں سے اور اُمور خانہ داری کو عورتوں سے متعلق رکھا ہے، یہ خود عورتوں کے حق میں بہت بہتر ہے —- آخری باب اس پہلو پر ہے کہ اسلام نے مردوں ہی کی طرح خواتین کو بھی اپنی املاک میں تصرف کا حق دیا ہے، اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ بعض مذاہب میں عورت مالک تو بن سکتی ہے، لیکن وہ حسب منشاء اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتی۔

یہ رسالہ بہ مشکل دو تین دونوں میں مرتب ہوا ہے، اگر حسب ضرورت حوالہ جات کی تخریج میں المعہد العالی الاسلامی حیدر آباد کے شعبۂ حدیث و فقہ کے طلبہ کا تعاون شریکِ حال نہ ہوتا تو شاید اتنے کم وقت میں دوسری مصروفیات کے ساتھ یہ کام نہیں ہو پاتا، اﷲ تعالیٰ ان سبھوں کو جزاء خیر عطا فرمائے اور اس کم سواد تحریر کو قبولیت سے نوازے۔ واﷲ ہو المستعان۔

 

۲/ صفر ۱۴۲۹ھ                                                      خالد سیف اﷲ رحمانی

۱۰/فروری ۲۰۰۸ء                                ( بیت الحمد، شاہین نگر، حیدرآباد )


خواتین انسانیت کا نصف حصہ ہیں، خدا نے ان سے جو فرائض متعلق کئے ہیں، اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ لطافت کی پیکر ہوں، جس میں مہر و وفا، شرم و حیا اور نازک اندامی اس طرح جمع ہوں کہ ان میں محبت کی خوشبو بھی ہو اور شرم و حیا بھی ان کے حسن ناز کے لئے زیور کا کام کرتی ہو، صنف لطیف کے وجود کے اس امتیازی پہلو نے ایک طرف اس کو ایسی کشش بھی دی ہے جو ہمیشہ مردوں کی محبت کا مرکز ہوتی ہے اور جسمانی اعتبار سے کمزور ہونے کی وجہ سے وہ مردوں کے ظلم و زیادتی اور استحصال کا شکار بھی ہوتی رہی ہے، نیز یہ صورتِ حال تاریخ کے ہر دور میں رہی ہے، کبھی عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور اس کی عصمت کا سودا کیا جاتا تھا، آج کے اس ترقی یافتہ عہد میں بھی عورت کے حسن کو فروخت کیا جاتا ہے، اس کے گیسو و عارض کو تجارتی تشہیر کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اور اس کے حسن کو عریاں کر کے اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے، اس لئے اس طبقہ کا استحصال جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے، آج بھی ہو رہا ہے، صرف عنوان بدل گیا ہے اور آج یہ سب کچھ آزادی اور ترقی کے نام پر کیا جا رہا ہے۔


رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم جب اس دنیا میں تشریف لائے، تو دو طبقہ سب سے زیادہ مظلوم اور قابل رحم تھا، ایک غلاموں کا، دوسرا عورتوں کا، اس لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم یوں تو تمام انسانیت کے لئے ابرِ رحمت بن کر آئے اور ہر انسان کو ظلم و نا انصافی سے نجات دلانے کی کوشش کی ؛ لیکن ان دونوں طبقوں کے ساتھ حسن سلوک کی خاص طور پر تلقین فرمائی ؛ بلکہ مرضِ وفات میں بھی لوگوں کو اس طرف متوجہ فرمایا، پھر آپ ا نے اس کے لئے محض اخلاقی ہدایات ہی پر اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ ایک ایسا نظام قانون انسانیت کو دیا، جس میں ہر مرحلہ پر خواتین کے حقوق کو خصوصی اہمیت دی گئی، یہ حقوق جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں سے متعلق ہیں، اسی طرح مال سے متعلق بھی ہیں۔


خواتین کو جو مالی حقوق دیئے گئے ہیں، ان کا چند بنیادی نکات کے ذریعہ احاطہ کیا جا سکتا ہے :


(۱)        میراث وغیرہ میں عورتوں کے حقوق۔

(۲)       خواتین کا نفقہ اور ان کی ضروریاتِ زندگی کے سلسلہ میں مردوں کی ذمہ داریاں۔

(۳)      مہر کا حق اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات۔

(۴)      کسبِ معاش کے مختلف ذرائع سے استفادہ کا حق۔

(۵)      خواتین کے لئے اپنی املاک میں تصرف کا حق۔