اسلام کے قانونِ میراث میں جن رشتہ داروں کو مقدم رکھا گیا ہے، جو کسی حال میں ترکہ سے محروم نہیں ہو سکتے، وہ چھ ہیں : جن میں تین مرد ہیں :باپ، بیٹا، اور شوہر، تین عورتیں ہیں : ماں، بیٹی اور بیوی، اس کے علاوہ خصوصی اہمیت ان حقداروں کو حاصل ہے، جن کو ’ ذوی الفروض ‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ اعزہ جن کے حصے مقرر کر دیئے گئے ہیں، ان میں مردوں سے زیادہ تعداد خاتون رشتہ داروں کی ہے، اس لئے کہ مرد چھ حالتوں میں ذوی الفروض میں شمار کیا جاتا ہے، اور عورت ۱۷ حالتوں میں اس حیثیت سے میراث کی مستحق ہوتی ہے، چنانچہ یہاں حصوں کا تناسب اور ان کی مستحق خواتین کا ذکر کیا جاتا ہے  :

( الف )  دو تہائی  :

(۱) دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں(۲)دو یا دو سے زیادہ پوتیاں
(۳) دو یا دو سے زیادہ سگی بہن(۴) دو یا دو سے زیادہ باپ شریک بہن

( ب )  نصف  :

(۱)ایک بیٹی(۲)ایک پوتی
(۳)ایک سگی بہن(۴)ایک باپ شریک بہن

 

( ج )  ایک تہائی  :

(۱)ماں(۲)ماں شریک بہن

 

( د )  چھٹا حصہ  :

(۱)ماں(۲)دادی
(۳) پوتی(۴)باپ شریک بہن
(۵)ماں شریک بہن

 

( ہ )  چوتھائی  :

(۱)  بیوی

 

( و )  آٹھواں حصہ  :

(۱)  بیوی

 

اس میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ متعینہ حصوں میں سب سے زیادہ دو تہائی اور اس کے بعد نصف ہے، دو تہائی حصہ کا مردوں میں سے کوئی مستحق نہیں ہوتا اور نصف کا مستحق بھی مردوں میں صرف شوہر ہو سکتا ہے، جب کہ میت کی اولاد نہ رہی ہو۔

مقدار کے اعتبار سے خواتین کے حصہ پانے کی چار حالتیں ہوتی ہیں  :

(۱)        جب عورت کا حصہ اپنے ہم درجہ رشتہ دار مرد کے مقابلہ آدھا ہوتا ہے۔

(۲)       جب مرد اور عورت کا حصہ برابر ہوتا ہے۔

(۳)      جب عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہوتا ہے۔

(۴)      جب عورت وارث ہوتی ہے اور مرد وارث نہیں ہوتا ہے۔

یہاں ان تمام صورتوں کا احاطہ مقصود نہیں ہے ؛ لیکن اجمالی طور پر ان کا ذکر کیا جاتا ہے  :