وصیت سے مراد ہے اپنی موت کے بعد کسی کو مالک بنانا، وصیت کے سلسلہ میں شریعت کی طرف سے دو تحدیدات ہیں، ایک یہ ہے کہ وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں، چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ’’ لا وصیۃ لوارث‘[2]‘ دوسرے ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت نہیں کی جا سکتی ؛ کیوں کہ آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے زیادہ سے زیادہ اسی مقدار وصیت کی اجازت دی ہے،[3] ان دونوں شرائط کی رعایت کے ساتھ وصیت کرنے کا حق مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی، نیز وصیت مرد کے حق میں بھی کی جا سکتی ہے اور عورت کے حق میں بھی،عام حالات میں تو وصیت جائز ہے ؛ لیکن اگر باپ کی زندگی میں بیٹے یا بیٹی کا انتقال ہو جائے تو پوتوں، پوتیوں اور نواسوں، نواسیوں کے لئے وصیت کرنا مستحب ہے، اگر دادا اور نانا کو مسئلہ کا علم نہ ہو یا اس طرف توجہ نہ ہو تو دوسرے رشتہ داروں اور سماج کے ذمہ دار لوگوں کو انھیں توجہ دلانی چاہئے ؛ تاکہ آئندہ یہ محروم نہ ہونے پائیں اور وصیت کے ذریعہ ان کو بھی اپنے مورثِ اعلیٰ کی جائیداد میں حصہ مل سکے۔