لباس انسان کی ایک اہم ضرورت ہے، جس کا مقصد جسم کو چھپانا بھی ہے، اس کو موسم کے اتار چڑھاؤ سے بچانا بھی اور اس کے ساتھ ساتھ لباس انسان کے لئے زینت بھی ہے، خذوا  زینتکم عند کل مسجد، [15] اس لئے پوشاک کی فراہمی میں ان تینوں باتوں کی رعایت ضروری ہے، لباس ایسا ہو، جو شریعت کے احکام کے مطابق ستر کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو، دوسرے : سردی گرمی کی رعایت ہو، تیسرے : وہ اس عہد کے مروجہ معیار کے مطابق زینت و آرائش کے تقاضہ کو پورا کرتا ہو، ان تینوں باتوں کے علاوہ اتنی مقدار میں ہو کہ عورت پورے سال مناسب طریقہ پر اپنے پہننے، اوڑھنے کی ضرورت کو پورا کر سکتی ہو، چنانچہ علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں  :


ویجب علیہ من الکسوۃ فی کل سنۃ مرتین صیفیۃ وشتویۃ لأنہا تحتاج إلی الطعام والشراب تحتاج إلی اللباس لستر العورۃ ولدفع الحر و البرد و یختلف ذلک بالیسار والإعسار و الشتاء والصیف۔[16]

مرد پر سال میں دو مرتبہ گرما اور سرما کی رعایت کرتے ہوئے لباس فراہم کرنا واجب ہو گا، اس لئے کہ جیسے ہمیں کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ستر پوشی اور گرمی اور ٹھنڈک سے بچنے کے لئے بھی ہم لباس کے محتاج ہیں اور لباس تنگ دستی اور خوشحالی، نیز جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے مختلف ہو گا۔


جیسے خوراک کے سلسلہ میں انسان کے معیار زندگی اور گنجائش کی اہمیت ہے، اسی طرح لباس کے باب میں بھی اس کی رعایت ضروری ہے، یہ بات کہ مرد خود تو اچھا لباس پہنے اور اپنے زیر پرورش خواتین کے لئے گھٹیا لباس فراہم کرے درست نہیں، رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے غلاموں کے بارے میں فرمایا کہ جو کھانا تم خود کھاتے ہو، وہ انھیں کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو، انھیں پہناؤ[17]  تو جب غلاموں کے لئے اس معیار کو برتنے کا حکم دیا گیا ہے جو آقا کا ہو، تو ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کے لئے تو بدرجۂ اولیٰ یہ حکم ہو گا۔


پھر یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ عورتوں کے لئے شریعت نے بمقابلہ مردوں کے زیبائش و آرائش کی زیادہ گنجائش رکھی ہے، ریشم کی مرد کے لئے ممانعت ہے ؛ لیکن عورت کے لئے اجازت ہے، سونا اور ایک مثقال ( ۴ گرام، ۳۷۴ ملی گرام ) سے زیادہ چاندی — جو انگوٹھی کی شکل میں ہو —کے علاوہ مرد کے لئے حرام ہے[18]  ؛ لیکن عورتوں کے لئے اجازت ہے،[19]  زعفرانی رنگ کے کپڑے پہننے سے مردوں کو منع کیا گیا ہے، مگر خواتین کو منع نہیں کیا گیا،[20]  اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عورتوں کے لباس میں اس پہلو کی بھی رعایت ہونی چاہئے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے گھر سے زیادہ زہد و رع کا نمونہ کونسا گھر ہو سکتا ہے ؛ لیکن سیدنا حضرت عائشہؓ کے بعض کپڑے ایسے تھے کہ دلہن بنانے کے لئے لوگ اسے عاریت پر حاصل کرتے تھے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ خواتین میں چوں کہ فطری طور پر زیبائش و آرائش کا جذبہ زیادہ رکھا گیا ہے اور شریعت نے حلال و حرام کے احکام میں اس کی رعایت بھی کی ہے، اس لئے عورتوں کے لباس میں اس کو ملحوظ رکھا جائے، اس حقیقت کی طرف قرآن مجید نے ایک جامع لفظ ’’ معروف ‘‘ سے اشارہ کیا ہے، وعلی المولود لہ رزقہن وکسوتہن بالمعروف، [21] اُردو زبان میں اس کا ترجمہ ’ دستور کے مطابق ‘ کھانے اور کپڑے سے کیا گیا ہے، فقہاء نے بھی نفقہ سے متعلق خوراک اور پوشاک کے سلسلہ میں بار بار یہی بات کہی ہے، کہ اس کو ’’ معروف طریقہ ‘‘ کے مطابق ہونا چاہئے، بعض فقہاء نے اپنے زمانہ کے عرف کے مطابق صراحت کی ہے کہ گرمی میں کرتا، پاجامہ، دوپٹہ اور اوپر سے اوڑھی جانے والی چادر یعنی ہمارے زمانہ کے اعتبار سے برقعہ فراہم کیا جائے اور جاڑے کے موسم میں اونی یا روئی وغیرہ بھرے ہوئے کپڑے فراہم کئے جائیں۔[22]


پوشاک ہی کے حکم میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں، جو عورتوں کو زیب و زینت کے لے مطلوب ہوتی ہیں، جیسے آئینہ، کنگھی، تیل اور زیبائش کے مروجہ وسائل، جو شرعاً جائز ہوں اور جو زیر کفالت خاتون کی عمر سے میل کھاتے ہوں، چنانچہ علامہ خرشی مالکی نے نفقہ میں اسبابِ زینت کو بھی شامل رکھا ہے اور خاص طور پر سرمہ، تیل، مہندی کا ذکر کیا ہے، ’’وزینۃ تستضر بترکہا ککحل ودہن معتادین وحناء‘‘۔[23]